Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنے ہی چار بچوں کا مبینہ قاتل ’پولیس مقابلے‘ میں کیسے مارا گیا؟

پولیس کے مطابق محمد عظیم کی اہلیہ کا انتقال گزشتہ برس ہوا تھا اور ان کے سوگوران میں ایک 15 سالہ بیٹی ہے۔ فوٹو: سکرین گریب
لاہور کے علاقے کاہنہ کے رہائشی اپنے ہی چار بچوں کے مبینہ قاتل محمد عظیم کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے۔
اس نے پولیس کو بھی اپنے بیانات کے ذریعے ایک بار چکرا دیا تھا تاہم پولیس جلد ہی اس کے بیانات میں موجود تضاد کے باعث اس پر شک کرنے پر مجبور ہو گئی اور بچوں کی لاشیں ملنے کے بعد یہ شک یقین میں تبدیل ہوا تو مبینہ ملزم محمد عظیم کو گرفتار کر لیا گیا۔
 تاہم محمد عظیم بھی پولیس حراست میں مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا جس نے بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں۔
اس دل دہلا دینے والی کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب یکم اکتوبر کو محمد عظیم نامی شخص نے تھانے میں اپنے چار بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروائی۔
تھانہ کاہنہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق محمد عظیم نے بتایا کہ ’میرے چاروں بچے جن کے نام غلام صابر (عمر 12 سال)، سمیہ (عمر 9 سال)، نبیہہ (عمر 5 سال) اور عائشہ (عمر دو سال) ہیں، دکان سے چیزیں لینے گئے تھے مگر واپس نہیں لوٹے ۔‘
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق محمد عظیم نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ ان کے بچوں کو اغوا کر لیا گیا ہے جس کے بعد پولیس نے اغوا کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے بچوں کی تلاش شروع کی۔ باپ کی دی ہوئی معلومات کے مطابق جب پولیس نے تحقیقات شروع کیں تو کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔
کاہنہ پولیس اسٹیشن کے انوسٹی گیشن ونگ کے مطابق اس شخص کی ایک 15 سالہ بیٹی گھر پر ہی تھی۔ 
پولیس کو جلد ہی یہ شک گزرا کہ محمد عظیم کے بیان میں جھول ہے۔
ایس پی انوسٹی گیشن شہزاد رفیق اعوان کے مطابق ’علاقے سے جو شواہد ملے اس سے یہی پتہ چل رہا تھا کہ بچوں کو آخری بار باپ کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ گم شدہ بچوں میں ایک دو سالہ بچی بھی تھی وہ تو چل بھی نہیں سکتی تھی تو اسے کیوں دکان پر بھیجا گیا؟ یہ بھی معلوم ہوا کہ بچے محلے کی کسی دکان پر نہیں گئے تھے اور نہ ہی عظیم کی کسی سے کوئی دشمنی تھی جس کے بعد مدعی کو ہی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘
چند دن بعد قصور میں نہر سے تین بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو محمد عظیم کو حراست میں لے لیا گیا کیونکہ اس کے بیانات میں تضاد تھا۔
پولیس کے مطابق جب محمد عظیم کو حراست میں لیا تو اس نے جلد ہی اعترافِ جرم کر لیا کہ اس نے ہی اپنے چاروں بچوں کو مارنے کی غرض سے نہر میں پھینکا تھا۔
ایس پی شہزاد رفیق کے مطابق ’ملزم نے دوران تفتیش یہ بھی بتایا کہ اس نے کیسے اپنے ہی چار بچوں کو ساتھ لے جا کر رات کی تاریکی میں نہر میں پھینکا اور انہیں مرتا ہوا چھوڑ کر گھر واپس آ گیا۔‘
پولیس کے مطابق تین بچوں کی لاشیں ملنے کے بعد چوتھے بچے کی لاش کی تلاش کا عمل شروع ہوا تو ملزم کو جائے وقوعہ پر لے جایا گیا جہاں اس نے اپنے بچوں کو پھینکا تھا۔ ’اسی دوران پولیس پارٹی پر دو موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم محمد عظیم گولی لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ پولیس کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔‘
پولیس حکام کے مطابق فائرنگ کرنے کے بعد ملزم کے ساتھی جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کر دی۔
ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عمران کشور نے فرار ملزموں کی گرفتاری کے لیے ایس پی انوسٹی گیشن ماڈل ٹاؤن شہزاد رفیق اعوان کی سربراہی میں خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی ہے۔
تاہم اب بھی کئی ایسے سوال جواب طلب ہیں جو مبینہ ملزم کے قتل کے باعث پیدا ہوئے ہیں کہ کیا محمد عظیم کے اور ساتھی بھی ہیں؟ اور بچوں کو قتل کرنے کے محرکات کیا تھے؟ پولیس کے پاس فی الحال ان سوالات کے کوئی جواب نہیں۔
پولیس کے مطابق محمد عظیم کی اہلیہ کا گزشتہ برس انتقال ہوا تھا اور اس کی ایک 15 سالہ بیٹی ہی زندہ بچی ہے۔
 
 

شیئر: