کوئٹہ میں لٹریری فیسٹیول، ماہرہ خان اور انور مقصود نے میلہ لوٹ لیا
کوئٹہ میں لٹریری فیسٹیول، ماہرہ خان اور انور مقصود نے میلہ لوٹ لیا
جمعرات 16 مئی 2024 7:50
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
پاکستان بھر سے ادیبوں، لکھاریوں اور فنکاروں نے لٹریری فیسٹیول میں شرکت کی۔ فوٹو: آرٹس کونسل آف پاکستان
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اپنی نوعیت کا پہلا ادبی میلہ سج گیا۔ ملک بھر سے معروف فن کاروں، دانشوروں، لکھاریوں، شاعروں نے شرکت کی۔
میلے میں ادب و ثقافت، صحافت، سیاست، اقتصادیات سمیت مختلف موضوعات پر مکالمہ ہوا۔ فن پاروں کی نمائش، کتابوں کی رونمائی اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ثقافتی سٹالز بھی لگائے گئے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں ’پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘ کے عنوان سے دو روزہ رنگا رنگ تقریبات بدھ کو شروع ہوئیں تو یونیورسٹی عوام کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ شرکاء کی اکثریت طلبہ وطالبات اور نوجوانوں کی تھی۔
پہلے روز تین مختلف ہالوں میں ادب و ثقافت، گورننس، آثار قدیمہ، موسمیاتی تبدیلیوں سمیت مختلف موضوعات پر 14 سیشنز ہوئے۔ سب سے زیادہ رش معروف اداکارہ ماہرہ خان اور معروف مزاح نگار انور مقصود کے سیشنز کے دوران دیکھا گیا۔
یونیورسٹی کا ارفع کریم ایکسپو سینٹر ہال لوگوں بالخصوص نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں نے کھڑے ہو کر اپنی پسندیدہ ادکارہ اور مزاح نگار کو سنا-
معروف ادیب ودانشور کی زندگی کے سفر پر مبنی ’انور مقصود: زندگی کی باتیں‘ کے عنوان سے نشست کے میزبان معروف اداکار عدنان صدیقی تھے۔ انور مقصود نے اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی و سماجی مسائل، حالات کی تلخی کو اپنے مخصوص انداز میں مزاح کی زبان میں بیان کیا اور شرکاء کے چہروں پر خوب مسکراہٹیں بکھیریں۔
انور مقصود نے کہا کہ ایسا ہجوم انہوں نے اسلام آباد، کراچی اور نہ لاہور کے کسی ادبی میلے میں دیکھا جس پر کوئٹہ والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔
بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سے محبت کا اظہار انہوں نے کچھ یوں کہہ کر کیا کہ ’طبعیت ٹھیک نہیں اگر یہ فیسٹیول پنجاب سندھ یا خیبر پختونخوا میں ہوتا تو وہ شاید نہ جاتے۔‘
بلوچستان کے بارے میں اپنی پسند سے متعلق عدنان صدیقی کے سوال پر انور مقصود نے کہا کہ انہیں بلوچستان کا کھویا پسند ہے، میزبان نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ کھویا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سوغات ہیں۔ تو انور مقصود نے کہا کہ ’یہاں جو بندہ کھویا ہوا ہے مجھے وہ پسند ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ مشکل دور ہے، مہنگائی ہے، پریشانی ہے مگر چند لوگوں کو امید ہے کہ حالات ٹھیک ہوں گے لیکن اب مجھے وہ چند لوگ نظر نہیں آ رہے ہیں۔‘
عدنان صدیقی نے کہا کہ ’آپ کے پرستار گلہ کر رہے ہیں کہ ایک عرصہ ہو گیا آپ نے ٹی وی کے لیے کچھ نہیں لکھا‘، جس پر انور مقصود نے کہا کہ ’میں زیادہ تر مزاح لکھتا تھا لیکن اب تو مزاحیہ ڈرامے صوبائی اور قومی اسمبلی میں ہو رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر میں ویسے تو نہیں لکھ سکتا اس لیے میں نے تھوڑا سا وقفہ لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تہذیب کی کمی ہوئی ہے، حالات بدلیں گے، دن پھریں گے تو وہ تہذیب قلم میں بھی آ جائے گی تو لوگ لکھیں گے۔
انور مقصود نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میری عمر کے لوگ آپ کے مجرم ہیں ہم نے آپ لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہم صرف لوگوں کو حکومتوں میں آتے جاتے دیکھتے رہے ، بلو چستان سب سے بڑا اور خوبصورت صوبہ ہے ۔ سب کچھ ہے اس صوبے میں ۔ بلوچستان کے لوگ بد قسمت ہے کہ ان کے ساتھ برتاؤاچھا نہیں ہوا ، جتنا اچھا صوبہ ہے اتنا اچھا آپ بن کر دکھائیں ۔
انہوں نے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر بھی دلچسپ تبصرے کیے اور کہا کہ صائم ایوب کوآؤٹ ہونے کی جلدی ہوتی ہے، بابر اعظم اچھے کھلاڑی ہیں مگر اپروچ ٹی20 والی نہیں۔ ’ہمیں ہر میچ اللہ جتاتا ہے۔ انضمام، یوسف، مشتاق، ثقلین یہ سب اللہ سے قریب ہیں۔ اگر یہ دعا کریں گے تو ہم جیت جائیں گے۔‘
انور مقصود نے کہا کہ ’فوج ہماری ضرورت ہے۔ فوج کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہم بھی اس کی ضرورت ہیں۔ جب ہم نہیں رہیں گے تو پھر وہ کس پر حکومت کریں گے۔ لہٰذا دونوں کی دوستی بہت ضروری ہے۔ یہ دوستی 76 برس سے چلی آ رہی ہے لیکن اب فضا مکدر ہو گئی ہے جس میں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔‘
معین اختر کے بعد کسی کے لیے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ عدنان صدیقی کے سوال کے جواب میں انور مقصود نے کہا کہ ’مجھے معین سے اچھا ایکٹر مل گیا ہے اور آج کل بے کار بھی ہے۔ اگلے ہفتے سے میں ان کے ساتھ ریکارڈنگ کروں گا۔ وہ شیخ رشید صاحب ہیں اور بہت اچھے ادا کار ہیں۔ سکرپٹ پر بہت اچھا کام کرتے ہیں۔‘
معروف اداکارہ ماہرہ خان کی نشست شروع ہونے سے پہلے ہی ایکسپو سینٹر شرکاء سے بھر گیا، کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں بچی۔ رش کی وجہ سے دھکم پیل اور بدنظمی بھی دیکھی گئی۔ ماہرہ خان بھی اپنے پرستاروں کو خاموش نہ کرا سکیں۔
فلم ڈائریکٹر وجاہت رؤف کے سوالات کے جوابات میں ماہرہ خان نے اپنی پسند ناپسند اور مستقبل کے خواب کے بارے میں بتایا۔ ماہرہ خان نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے اداکارہ بننا چاہتی تھی، بچپن سے اداکاری کا شوق تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ٹی وی یا کوئی فلم دیکھتی تھی تو میری حالت خراب ہو جاتی تھی، میں کہتی تھی کہ میں یہی کرنا چاہتی ہوں۔ زندگی میں پلان بی بھی ہونا چاہیے لیکن میرا کبھی پلان بی رہا ہی نہیں۔ میرے لیے کرو یا مرو جیسی صورتحال تھی۔‘
ماہرہ خان نے کہا کہ وہ غلطیوں اور ناکامیوں سے سیکھتی ہیں۔ یہ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ کوئی قدم یا فیصلہ لینے میں تاخیر ان کی غلط عادت ہے جسے وہ درست کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیار ملتا ہے تو بے شمار ملتا ہے اور جب تنقید ہوتی ہے تو بھی خوب ہوتی ہے۔ تنقید کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ صرف ٹرول کرتے ہیں۔
ماہرہ خان نے کہا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ شہرت بری چیز ہے، شہرت اور عزت کے لیے وہ اللہ کی شکر گزار ہیں، جو چاہا وہ مل گیا۔
پرستاروں نے ماہرہ خان سے دوبارہ آنے اور بلوچستان میں فلم بنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے فورا حامی بھر لی۔ ماہرہ خان نے اپنے پسندیدہ کھانے، گانے، شاعر، خوشبو اور پسندیدہ فلم کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے اپنا پسندیدہ گانا گنگنایا تو ہال تالیوں، سیٹیوں اور شور سے گونج اٹھا۔
اس سے پہلے افتتاحی تقریب میں صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے استقبالیہ خطبہ دیا۔ مہمان خصوصی سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق خان اچکزئی نے کہا کہ یہ ادبی میلہ مصنفین، شاعر و دانشوروں کا اجتماع نہیں بلکہ انسانی روح کا جشن ہے جو اجتماعی دانش کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادبی میلوں میں خیالات کا تصادم اور ہم آہنگی ہوتی جبکہ تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں، ’ہمیں افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے ادب کی طاقت کو پہچاننا ہوگا۔‘
وزیر ثقافت سندھ سید ذوالفقار علی شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’موہنجودڑو سندھ کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے، یہاں پر رہنے والے بلوچ ہوں یا پختون ان کا ایک قدیم تعلق ہے، بلوچستان کی محبتیں پورے پاکستان کے لیے ہیں، مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کے نوجوان پاکستان میں تبدیلی لاکر پورے ملک کو اکٹھا کریں گے۔‘
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا کہ ’آج اس ہال میں ہزاروں طلبا کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ بلوچستان پاکستان کو بدلے گا، بلوچستان کی ثقافت، موسیقی اور صحافیوں میں بہت طاقت ہے، یہاں کے طلبا میں سیاسی شعور ہے، سب سے زیادہ بلوچستان کے صحافی مارے گئے کیونکہ وہ لوگوں کو سچ بتانا چاہتے تھے۔‘
لکھاری نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ ’اس وقت اگر پاکستان میں کوئی نوجوان نسل اپنے پورے شعور کے ساتھ سر اٹھائے کھڑی ہے وہ بلوچستان کی نوجوان نسل ہے، دور سے دیکھنا اور بات ہے جب آپ قریب سے ناراضگی، دکھ، محرومیاں سنتے ہیں تو اس کے ساتھ آپ بھی سلگ رہے ہوتے ہیں، آپ کی سوچ، آپ کا شعوراور دیگر مسائل کا حل ہم ڈائیلاگ کے ذریعے نکال سکتے ہیں۔‘
’خوشحال بلوچستان۔ مستحکم پاکستان‘ کے عنوان سے مکالمے میں سابق بیورو کریٹ فواد حسن فواد، سینیئر صحافی و تجزیہ نگار سلیم صافی، شمس الدین احمد شیخ، حفیظ جمالی اورسینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے شرکت کی۔
سابق بیورو کریٹ فواد حسن فواد نے کہا کہ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی ترقی کی راہ میں سول بیوروکریسی بڑی رکاوٹ ہے۔ ’میں پوری ایمانداری سے یہ با ت کررہا ہوں، بلوچستان میں جب بھی سوئی گیس کا دائرہ وسیع کرنے کی بات ہوتی تو آبادی کم اور دور ہونے کا بہانہ بنا کر بلوچستان میں گیس فراہم نہیں کی گئی لیکن اگر کوئی یونیورسٹی پنجاب چھوٹے ضلع لیہ میں بھی بنانی ہو تو یہ کبھی نہیں سوچا جاتا کہ اس کی فیکلٹی اور طالب علم کہاں سے آئیں گے، ہمیں درست فیصلے کرنا ہوں گے۔‘
’مؤثر بلوچی، پشتو، براہوی اور ان کے رجحانات‘ پر مجلس میں وحید نور، نصیب اللہ سیماب اور وحید ظہیر نے اظہارِ خیال کیا۔ نظامت کے فرائض حامد بلوچ نے انجام دیے۔
وحید نور نے کہا کہ بلوچ کی یہ خوش بختی ہے کہ اس کا شاعر اپنی شعری روایت سے جڑا ہوا ہے وہ آپ کو کہیں بھی جمالیات کا دامن چھوڑے نظر نہیں آتا احساس کی شدت کا بیان ڈیڑھ ہزار سال سے کرتے کرتے وہ جمالیات کو محفوظ کرنا سیکھ گیا ہے۔
ادبی میلے میں ’مہر گڑھ بلوچستان کا تاریکی اور تہذیبی ورثہ‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ ’ہماری تاریخ کھود کے بیچنے کے لیے نہیں، ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ہمارے تاریخی عجائبات کو سمجھ سکیں۔ بلوچستان اور سندھ نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔‘
ماہر آثار قدیمہ اسماء ابراہیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس جو تہذیب ہے وہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہے۔ ہم بلوچستان کی تہذیب کو محفوظ کرنے کے لیے ایک میوزیم بنا رہے ہیں۔ میوزیم میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ بھی تشکیل دیا جائے گا۔
تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر فاروق بلوچ نے کہا کہ ’مہر گڑھ کی جو تاریخی حیثیت ہے ہم اس سے ویسے استفادہ نہیں کر رہے جو اس کا حق ہے۔‘