سنیچر کی شب لاہور ایئرپورٹ پر اردو نیوز کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا کہ ’100 سے زیادہ طلبہ ہیں۔ پشاور کا ایک لڑکا زخمی ہے۔‘
’میں نے طلبہ سے معلومات لی ہیں۔ وزیراعظم کو اس بارے میں آگاہ کروں گا اور ہم کوشش کریں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو واپس لایا جا سکے۔‘
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے لاہور ایئرپورٹ پر طلبہ کا استقبال کیا۔
انہوں نے بحفاظت وطن واپس آنے والے طلبہ سے ملاقات کی اور خیریت دریافت کی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے طلبہ سے بشکیک میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے بارے معلومات لیں اور مسائل پوچھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے گی۔ کرغزستان میں موجود دیگر طلبہ کو بھی پاکستان واپس لایا جائے گا۔
دوسری جانب ان مسافروں کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کرغزستان میں تعاون کیا گیا اور نہ ہی یہاں کوئی خبر لی جا رہی ہے۔
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے پیشکش کی تھی کہ جو طلبہ واپس آنا چاہیں تو انہیں سرکاری خرچ پر یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔
سنیچر کی شام وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم نے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر امیر مقام کو بھی کرغزستان جانے کی ہدایت کی تھی۔
بیان کے مطابق ’نائب وزیرِاعظم و وزیر خارجہ کے ہمراہ، وفاقی وزیر برائے کشمیر امور امیر مقام بھی کرغزستان جائیں گے۔ دونوں وزرا کل علی الصبح خصوصی طیارے کے ذریعے بشکیک روانہ ہوں گے۔‘
’خوشی ہے کہ ہمارے بچے پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں‘
محمد زبیر لاہور کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بشکیک میں پاکستانی سفارت خانے کا رویہ مایوس کن تھا۔‘
ان کے بقول ’میرا ایک بچہ اب پہنچ جائے گا لیکن وہ کیسے پہنچا ہے۔ جس طرح فلائٹ پر سوار ہوا ہے، وہ وہی بتا سکتا ہے کیونکہ جب تک ہم رابطے میں تھے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا ’لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بچے پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ کل بھی میرا ایک بچہ پہنچے گا۔‘
کئی ایسے طلبہ بھی یہاں پہنچیں جو بشکیک سے پڑھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق وہ اپنے دوستوں کو ریسیو کرنے آئے ہیں۔
ائیرپورٹ پر سکیورٹی کے انتظامات معمول سے زیادہ کیے گئے اور پولیس کی نفری بھی تعینات تھی۔
سنیچر کو کرغزستان کی حکومت نے تصدیق کی کہ غیرملکی طلبہ کے خلاف جمعے کی شب ہونے والے پرتشدد واقعات میں کوئی پاکستانی طالب علم ہلاک نہیں ہوا تاہم پاکستان کے سفیر نے بتایا کہ پانچ طلبہ زخمی ہیں۔
بشکیک کے حالات
کرغستان میں مقیم پاکستانی طالب علم احسان اللہ جان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت بشکیک کے باقی علاقے پرامن ہو گئے ہیں۔
’کچھ مقامات کے علاوہ بشکیک میں خاموشی ہے۔ وستک 5 نامی علاقہ الرٹ پر ہے جہاں چند مقامی لوگ جگہ تبدیل کر کے تخریب کاری کر رہے ہیں۔ پولیس اور رینجرز ہائی الرٹ پر ہیں۔ ہاسٹلز کے باہر پولیس کھڑی ہے۔ کم از کم کل رات سے آج کی رات بہتر ہے۔‘
دن بھر کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات رہے جس کی بدولت پاکستانی اور دیگر غیرملکی طلبہ کو کچھ تسلی ہوئی۔
عمیر نامی پاکستانی طالب علم کے مطابق ’کل رات تو بالکل بھی حالات ٹھیک نہیں تھے لیکن دن کی روشنی کے ساتھ ہی ہمیں حالات ٹھیک ہوتے دکھائی دیے۔ پولیس بھی پہنچ گئی تھی لیکن آج پھر جب روشنی ڈھل گئی اور اندھیرا پھیل گیا تو وستک اور ایسے کئی دیگر علاقوں میں چند مقامی لوگ ہاسٹلز کے آس پاس جمع ہو گئے۔ ہم گھر والوں کے ساتھ فون ہر بات بھی نہیں کر سکتے کیونکہ خدشہ ہے کہ ہماری آواز باہر نہ چلی جائے۔ ہماری یونیورسٹی کی جانب سے تاحال باضابطہ طور پر کوئی مراسلہ جاری نہیں ہوا تاہم ہمیں بار بار کہا جا رہا ہے کہ جو طلبہ اپنے ملک جا سکتے ہیں وہ چلے جائیں۔‘
انٹرنیشنل یونیورسٹی آف کرغستان کی انتظامیہ نے سمسٹر چھ کے طلبا کو پیغام دیا ہے کہ وہ جہاں بھی ہی باہر نہ نکلیں۔
اسی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ دن کی روشنی کی وجہ سے تخریب کار عناصر غائب رہے لیکن اب پھر سے امڈ آئے ہیں۔
’اندھیرا ہوتے ہی وستک کے مقام پر چند مقامی لوگ حملہ آور ہوئے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو پاکستان طلبہ کا سینٹر تصور ہوتا ہے۔ یہاں کی عمارتوں میں اکثر پاکستانی طلبا رہائش پذیر ہوتے ہیں اور اس کے آس پاس تمام یونیورسٹیز موجود ہیں۔ ہمیں ہمارے دوستوں کی طرف سے ویڈیوز اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ مشتعل افراد دوبارہ آ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ انہیں واٹس ایپ گروپس میں بار بار محتاط رہنے کی تلقین کر رہی ہے۔
’مقامی انتظامیہ اور یونیورسٹی انتظامیہ پاکستان کو کئی خبریں مسخ شدہ حالت میں پہنچا رہی ہے۔ یہاں حالت اتنے بھی نارمل نہیں ہوئے جتنا میڈیا پر بتایا جا رہا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ کل لاہور اور اسلام آباد کے لیے فلائٹس کا انتظام ہو گیا ہے لہٰذا آپ سب جانے کی تیاری کریں لیکن ابھی تک کوئی منظم طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔‘
پاکستانی سفیر کا ویڈیو بیان
پاکستان کی وزارت خارجہ نے سنیچر کی سہ پہر کرغستان میں پاکستان کے سفیر حسن ضیغم کا ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔
حسن ضیغم نے کہا کہ ’کل رات یہاں مقامی انتہاپسند عناصر نے انٹرنیشنل سٹوڈنٹس اور پاکستان کے طلبہ کی رہائش گاہوں پر حملہ کیا۔ کم از کم چھ ہاسٹل اس حملے کی زد میں آئے ہیں۔‘
انہوں نے کرغز حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’14 انٹرنیشنل طلبہ اس وقت زخمی ہیں۔ مشن کو بتایا گیا ہے کہ ایک پاکستانی طالب علم شاہزیب اس وقت نیشنل ہسپتال کرغز میں زیرعلاج ہے۔‘
پاکستانی سفیر نے کرغزستان میں پاکستانی کمیونٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں پر یقین نہ کریں جب تک ان کی تصدیق نہ ہو جائے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایمرجنسی نمبرز بھی شیئر کیے ہیں۔
پاکستانی طلبہ سمیت دیگر غیر ملکی طلبہ بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال کنٹرول میں آ چکی ہے تاہم طلبہ و طالبات خوف و ہراس میں ہیں۔
طالب علم تنویر احمد کے بقول ’یہاں صرف پاکستانیوں کو نہیں بلکہ جتنے بھی غیرملکی طلبہ ہیں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے کئی دوست ہیں جن کا تعلق مصر، انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے ہے، ان میں زیادہ تر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تشدد کرنے والے کسی سے نہیں پوچھ رہے کہ وہ کہاں سے ہے؟ بس جیسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی ہے تو معلوم نہیں کس چیز کا غصہ نکال دیتے ہیں۔‘
مقامی لوگ کیوں مشتعل ہوئے؟
احسان اللہ جان بھی بشکیک کی ایک یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے گھر والے نہایت پریشان ہیں اور ہر وقت ان سے رابطہ کر کے اسے کمرے میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 13 مئی کو کرغزستان کے مقامی لوگ غیر ملکیوں (مصریوں) کے ہاسٹل میں داخل ہوئے تھے جہاں دونوں جانب سے تشدد ہوا، جس کے بعد مقامی لوگوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں۔ 17 مئی کو تمام مقامی افراد اکھٹے ہوئے اور تمام غیرملکی طلبہ پر تشدد کا آغاز کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مقامی لوگوں نے جہاں بھی غیرملکی طلبہ کو دیکھا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ رات تک لوگوں پر تشدد کیا جا رہا تھا جبکہ سفارتخانے کی طرف سے ہماری کوئی امداد نہیں کی جا رہی تھی۔ اس کے بعد وہ تمام لوگ مختلف اپارٹمنٹس اور ہاسٹلز میں داخل ہوئے اور طلبہ پر تشدد کرنے لگے۔‘