Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایک بار ہم سے بات کریں‘، چترال میں خودکشی کی روک تھام کے لیے خصوصی یونٹ

ڈاکٹر فیضی کے مطابق خودکشی کی ایک وجہ چترال میں طبقاتی نظام کا ہونا بھی ہے۔ (فوٹو: چترال پولیس)
خیبرپختونخوا کا ضلع چترال قدرتی حسن کے باعث دنیا بھر میں سیاحت کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے مگر حالیہ کچھ عرصے کے دوران اس ضلع میں خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور خودکشی کرنے والے مرد و خواتین میں سے بہت سوں نے دریا میں کود کر اپنی جان لی۔
چترال پولیس نے اس معاملے کی سنجیدگی کا ادراک کرتے ہوئے پہلی بار خودکشی کی روک تھام کے لیے ’سوسائیڈ پریوینٹیو یونٹ‘قائم کیا ہے جس کا باقاعدہ افتتاح ریجنل پولیس آفیسر محمد علی گنڈا پور نے 20 مئی کو کیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر لوئر چترال افتخار شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'چترال میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں مگر خودکشی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کی جانب سے خدمت مرکز بنایا گیا ہے تاکہ خودکشی کے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس یونٹ کے قیام کا مقصد خودکشی کرنے والے کو اس انتہائی سنگین اقدام سے روکنا ہے۔ کوئی اگر خودکشی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ایک بار ہم سے بات کرے اور ہماری ہیلپ لائن پر کال کر کے اپنی پریشانی کے بارے میں بتائے۔‘
ڈی پی او افتخار شاہ کے مطابق گھریلو لڑائی جھگڑے، ڈپریشن اور امتحانات میں نمبرز کا کم آنا خودکشی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
خودکشی کی روک تھام کے لیے قائم کیے گئے ڈیسک کے انچارج دلشاد پری نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'کسی بھی شہری کو اگر کوئی بھی پریشانی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرسکتا ہے۔ اس یونٹ کی طرف سے متاثرہ شخص کو ماہرنفسیات اور ماہر قانون کی مدد حاصل ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’خواتین یا نوجوان اپنے مسائل ہمیں بتا سکتے ہیں۔ ہم ان مسائل کو فی الفور حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہوسکتا ہے ہماری کونسلنگ کی وجہ سے وہ شخص خودکشی کا ارادہ ترک کر دے۔‘
سب انسپکٹر دلشاد پری کے مطابق چترال میں زیادہ تر خواتین مشکل حالات کا سامنا کرتی ہیں جنہیں قانونی مدد کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا، 'ایسے شہری کی کونسلنگ کے بعد مذکورہ فرد کو پولیس خدمت مرکز کے ذریعے دارلامان یا بحالی مرکز میں داخل کروایا جائے گا۔‘

 کیا خودکشی کا ارادہ کرنے والے شخص کو ایسا کرنے سے روکا جاسکتا ہے؟

ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ 'جب بھی کوئی شخص اپنی جان لینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ایسا کرنے سے روکنا آسان نہیں۔ تاہم اس شخص کے قریبی رشتہ دار یا دوست اسے اپنی باتوں سے قائل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی گھریلو مسئلہ ہو تو گھر کے افراد اسے روک سکتے ہیں۔‘
’خودکشی کرنے والا کبھی اپنا ارادہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ دریا میں کودنے والا ہے۔ یہ انتہائی قدم وہ اچانک اٹھاتا ہے مگر اس کے قریبی لوگ اس کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں سے اس بارے میں جان سکتے ہیں۔‘

ڈی پی او افتخار شاہ کے مطابق گھریلو لڑائی جھگڑے، ڈپریشن اور امتحانات میں نمبرز کا کم آنا خودکشی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ (فوٹو: پولیس)

ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق پولیس کی جانب سے خودکشی کی روک تھام سے متعلق ڈیسک قائم کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ ’مگر اس یونٹ میں ماہر نفسیات کو شامل کرنے سے کسی حد تک کامیابی ممکن ہوسکتی ہے۔‘

خودکشی کی وجوہات کیا ہیں؟

 چترال سے تعلق رکھنے والے مصنف اور دانشور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے موقف اختیار کیا کہ ’چترال میں خودکشی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر میری رائے کے مطابق تین بڑی وجوہات ہیں جو قابل توجہ ہیں جن میں پہلی وجہ چترال میں مواقع اور سہولیات کا نہ ہونا ہے۔ حالانکہ یہاں شرح خواندگی 60 فیصد ہے اور یہ صوبے میں چوتھے نمبر پر ہے۔‘
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق، ’نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہو کر بھی بے روزگار ہیں اور ان کے پاس کوئی کام کاج نہیں ہے۔‘
’دوسری وجہ چترال میں طبقاتی نظام کا ہونا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔‘
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق خودکشی کی تیسری بڑی وجہ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کو پسند نہ کرنا ہے جو ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کررہی ہے۔ ’تاہم خاندانی نظام کو مضبوط بنا کر اور میڈیا کے ذریعے آگاہی فراہم کر کے خودکشی کے واقعات کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‘

 چترال میں خودکشی کے اعداد و شمار کیا ہیں؟

 چترال پولیس کی رپورٹ کے مطابق چترال میں گذشتہ 10 برسوں کے دوران خودکشی کے 106 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 59 مرد اور 47 خواتین شامل ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد نے دریا میں کود کر اپنی جان لی۔

 چترال پولیس کی رپورٹ کے مطابق چترال میں گذشتہ 10 برسوں کے دوران خودکشی کے 106 واقعات رپورٹ ہوئے۔ (فوٹو: پولیس)

تحریک تحفظ حقوق چترال کے رہنما پیر مختار بنی نے بتایا کہ ’چترال میں پانی میں ڈوبنے کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا پھر اسے خودکشی کا نام دے کر سرے سے رپورٹ ہی درج نہیں کی جاتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ 'خودکشی کے بہت سے مبینہ واقعات میں نوجوانوں نے دریا میں کود کر جان دی اور ان کی لاش کا بھی پتا نہیں چلا۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس خودکشی کے ہر کیس کو رپورٹ کر کے تفتیش کرے کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر واقعہ خودکشی کا ہی ہو۔
’یہاں پر غیرت کے نام پر قتل بھی کیے جاتے ہیں جن کو خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ ایسے واقعات میں ہر صورت پوسٹ مارٹم کرایا جائے تاکہ حقیقت سامنے آئے۔‘

شیئر: