ہلدھر ناگ، انڈیا کے ’ان پڑھ‘ شاعر جن پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاتے ہیں
ہلدھر ناگ، انڈیا کے ’ان پڑھ‘ شاعر جن پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاتے ہیں
بدھ 22 مئی 2024 7:33
علی عباس۔ لاہور
ہلدھر ناگ کو انڈیا کے چوتھے بڑے شہری اعزاز ’پدما شری‘ سے نوازا جا چکا ہے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
یہ اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے جب ایک روز اس کے والد اور گھر کے واحد کفیل وفات پا گئے جس کے باعث اس کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں پنہاں تمام خواب نوچ ڈالے اور ایک ڈھابے پر برتن دھونے کا کام کرنے لگا۔
گاؤں کی پنچایت کے سربراہ اس کے گھر کی حالت کے بارے میں آگاہ تھے۔ انہوں نے اسے مقامی سکول میں باورچی کی ملازمت دلوا دی جہاں وہ 10 برس سے زیادہ عرصے تک پوری تندہی سے اپنا کام کرتا رہا۔ اس نے اس وقت اپنا کام کرنے کا سوچا اور ایک ہزار روپے ادھار لے کر سکول کے قریب ہی سٹیشنری کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔
یہ انڈیا کی شمالی ریاست اوڑیسہ کے ضلع برگڑھ کے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس پر آپ راہ چلتے اچٹتی سی نگاہ ڈالتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن اس عام سے دکھنے والے انسان کی شاعری نے ہر صاحب ذوق کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ مغربی اوڑیسہ میں بولی جانے والی زبان 'سمبل پوری' کے عظیم شاعر ہلدھر ناگ ہیں جنہیں سال 2016 میں انڈیا کے چوتھے بڑے شہری اعزاز 'پدما شری' سے نوازا گیا تھا۔
ذی نیوز اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے، 'ہلدھر ناگ اوڑیا لوک روایت اور 'کوشالی' زبان کے مشہور شاعر ہیں جنہوں نے اگرچہ رسمی تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر ان کی شاعری پر پی ایچ ڈی کے پانچ مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ وہ سادہ طرز زندگی اور فکری طور پر بلند استھان پر کھڑے ہیں۔'
کچھ بات 'سمبل پوری' پر ہو جائے جس کے لیے متنازع اصطلاح 'کوشالی' کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے اوڑیسہ میں بولی جانے والی زبان 'اوڑیا' کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں مگر 'سمبل پوری' بولنے والے اس دعوے کو ہمیشہ مسترد کرتے آئے ہیں۔ سمبل پوری بولنے والوں کی مجموعی تعداد 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ہلدھر ناگ کی وجہ سے اس زبان کو عالمی شناخت ملی ہے۔
ہلدھر ناگ کی طرز شاعری کا موازنہ ضلع برگڑھ سے ہی تعلق رکھنے والے 20 ویں صدی کے لیجنڈ شاعر گنگودھر مھر سے کیا جاتا ہے لیکن ہلدھر ناگ کہتے ہیں کہ وہ اس عظیم شاعر کے ساتھ اپنا موازنہ درست خیال نہیں کرتے۔
ہلدھر ناگ نے سال 1990 میں اپنی پہلی نظم 'برگد کا درخت' کے عنوان سے کہی۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی اور 'سمبل پوری' بولنے والوں کی خوش بختی کہ ان کی یہ نظم ایک مقامی جریدے میں شائع ہو گئی اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 'سمبل پوری' زبان کے نمایاں شاعر کے طور پر ابھرے۔ ان کی نظموں کے موضوعات زیادہ تر فطرت، سماج، اساطیری قصوں اور مذہب کے گرد گھومتے ہیں۔
ہلدھر ناگ کے جیون کے رنگ ہی کچھ ایسے ہیں جو متاثر کیے بنا نہیں رہ پاتے۔ سال 2016 میں جب ان کا نام پدما شری کے لیے نامزد کیا گیا تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ ‘صاحب، میرے پاس دہلی آنے کا کرایہ نہیں ہے چناں چہ مجھے یہ ایوارڈ پوسٹ کے ذریعے ارسال کر دیا جائے۔'
وہ کسی نہ کسی طور پر اس وقت انڈیا کے صدر پرناب مکھرجی سے ایوارڈ وصول کرنے دہلی پہنچے تو انہوں نے بے داغ سفید بنیان اور دھوتی پہن رکھی تھی اور وہ برہنہ پا تھے۔ اس وقت بہت سے نیوز چینلوں پر یہ بحث چھڑی کہ ایک تخلیق کار کیوں ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے؟
ذی نیوز کے ویب پورٹل پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، 'گہری سانولی رنگت کے 74 برس کے لیجنڈری اوڑیا شاعر کو ہر سال ان کے گائوں میں 'یتھ یاترا' کے دنوں میں چنے فروخت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ '
وہ پدما شری ملنے کے بعد بھی احساس تفاخر کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ کہتے ہیں، 'یہ ان کا پیشہ ہے اور وہ اپنی گزر بسر اسی کے ذریعے ممکن بناتے ہیں۔'
وہ مزید کہتے ہیں، 'وہ یہ کام اپنے عہد نوجوانی سے کرتے آ رہے ہیں اور وہ اسے محض اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ ان کو پدما شری مل چکا ہے۔'
ہلدھر ناگ سال 2016 میں پدما شری وصول کرنے آئے تو ان کو انعام کے ساتھ 10 ہزار روپے بھی دیے گئے جو اس درویش صفت شاعر نے ایک یتیم خانے کو عطیہ کر دیے۔
ہلدھر ناگ کی اپنی زبان اور دھرتی سے محبت کسی طور پر داغستان کے عظیم شاعر رسول حمزہ توف سے کم نہیں جن کی وجہ سے آج داغستانی زبان کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ 'سمبل پوری' زبان کا بھی ہے جس کے بارے میں ہلدھر ناگ سے قبل ان کی ریاست میں بسنے والے لوگ بھی کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔
یہ ان کی شاعری کے مرہون منت ہی ہے کہ 'سمبل پوری' زبان کے شاعر اب اوڑیا میں نہیں بلکہ اپنی مادری زبان میں لکھنے لگے ہیں۔ وہ ہلدھر ناگ کی شاعرانہ عظمت کے باعث پرامید ہیں کہ جلد ہی ان کی زبان کو بھی سرکاری طور پر شناخت مل جائے گی۔
ان کی شاعری کے پانچ مجموعوں کے انگریزی زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔ یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کے مترجم سرندر ناتھ نیوی کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ یہ سال 2016 کا ذکر ہے جب انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہلدھر ناگ کی ایوارڈ لیتے ہوئے ویڈیو دیکھی۔ ان کا 'بنیان' میں ملبوس اس شاعر کے حوالے سے تجسس بڑھا اور انہوں نے ان کی شاعری پڑھی۔ ظاہر ہے زیادہ لوگ یہ زبان سمجھ نہیں سکتے تھے جس کے باعث ان کی شاعری بیرونی دنیا تک پہنچنے کا امکان نہیں تھا۔ انہوں نے اس وقت ان کی شاعری کا انگریزی ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ حاصل کر سکیں اور یوں 'کاویا انجلی پراجیکٹ' کا آغاز ہوا جس کے تحت ان کی شاعری کے پانچ مجموعے انگریزی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔
ہلدھر ناگ نے ٹیلی گراف انڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، 'میں سال 1990 تک لوک گیت لکھتا رہا۔ سال 1990 کے بعد ہی کوشالی زبان میں شاعری کرنا شروع کی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد میری شاعری کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور معروف اشاعتی اداروں نے میرا زیادہ تر کام شائع کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا۔'
ہلدھر ناگ کا شعری مجموعہ اوڑیسہ کی سمبل پور یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بن چکا ہے۔
ہلدھر ناگ آج بھی برہنہ پا رہتے ہیں اور اپنا روایتی ملبوس دھوتی اور بنیان ہی زیب تن کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، 'وہ اپنے اس ملبوس میں خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔'
ہلدھر ناگ جب باورچی کے طور پر اپنے گائوں کے سکول میں ملازمت کر رہے تھے تو اس وقت وہ افسردہ نظروں سے بچوں کو پڑھتے ہوئے دیکھا کرتے۔ ان کا یہ خواب تو تشنہ رہ گیا مگر سال 2019 میں سمبل پور یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا جب کہ انہیں اوڑیسہ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
انڈین ویب سائٹ 'ارلی ٹائمز' کے مطابق، 'ان کی یادداشت غیرمعمولی ہے۔ آپ ان کی کسی بھی نظم کے عنوان کا ذکر کریں یا ان کی نظم کے موضوع پر بات کریں تو وہ آپ کو اپنی یہ نظم سنا دیں گے۔'
ہلدھر ناگ نے قبائلی اور یتیم بچوں کے لیے سکول کھولا جو ان کا زندگی بھر کا خواب تھا کیوں کہ وہ اس درد کو محسوس کرتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں سہا تھا جس کا اظہار ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ ان کی جیون کتھا بہت سے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ ڈگریوں سے آگے بڑھ کر سوچیں اور مایوس ہونے کی بجائے کچھ کر گزریں۔
ہلدھر ناگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ 'شاعری کا حقیقی زندگی سے تعلق ہونا چاہیے اور اس میں عوام کے لیے پیغام پنہاں ہو۔'
فلم میکر بھارت بالا کی ہدایت کاری میں ہلدھر ناگ کی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم میں عظیم شاعر گلزار ان کی نظم کے کچھ اشعار پڑھتے ہوئے کہتے ہیں،'ہلدھر ناگ جب اپنے گائوں کی مٹی پر قدم رکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کائنات ان کے آگے بچھی جا رہی ہو۔ '
سمبل پوری زبان کا یہ درویش صفت شاعر 74 برس کی عمر میں بھی اپنے قلم کے ذریعے وہ نغمے لکھ رہا ہے جو اس کے اردگرد پھیلی بے ترتیب زندگی کا مظہر ہیں۔ اس کی شاعری اس دھرتی سے پھوٹی ہے جس کا اس نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور وہ بجا طور پر یہ کہتا ہے، 'ہر کوئی شاعر ہے لیکن ان میں سے چند ہی ایسے ہیں جو اپنے لفظوں کو شعروں کا روپ دینے کے فن کے حوالے سے واقفیت رکھتے ہیں۔'
وہ گائوں گائوں جا کر اپنی نظمیں سناتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو ان کی ثقافت کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن پر آپ ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر نظرانداز تو کر سکتے ہیں مگر ان کی شاعری آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جسے نظرانداز کرنا آپ کے لیے کسی طور پر ممکن نہیں۔