Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن شاعری، ’کاش دِلوں کے بھی الیکشن ہوتے، ہم دھاندلی کر کے تمہیں جیت جاتے‘

سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم آج رات کو ختم ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے دیا گیا وقت آج منگل کی رات کو ختم ہو رہا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں، امیدواروں اور ان کے حمایتیوں کی جانب سے دلچسپ شاعری بھی کی گئی۔ یہ شاعری خالص انتخابات کے تناظر میں تھی۔
کئی سیاستدانوں نے اپنے پوسٹرز پر مشہور شعرا کے اشعار بھی لکھے جبکہ ’امن، خوشحالی اور استحکام کی جدوجہد کا علم بردار‘ سمیت ’میرا ماضی، پھر میری گواہی‘ جیسے رائج الوقت جملے بھی دیکھے گئے۔ لیکن اس سب کے دوران جو شاعری متعلقہ امیدوار یا مجموعی سیاسی و انتخابی منظر نامے پر کی گئی وہ نہایت دلچسپ ہے۔
کئی لوگوں کی جانب سے متعلقہ حلقے کے امیدوار کے انتخابی نشانات کے بارے میں بھی مقامی زبان میں شاعری کی گئی۔ این اے 11 شانگلہ سے مقامی لوگوں نے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کے انتخابی نشانات کے بارے میں ایک ٹپہ بھی لکھا:
ہائے زما انار انار جانانہ
ستا دیدن لہ بہ جہاز کی زہ درزمہ
(میرے انار کی طرح خوبصورت محبوب، میں تیری دید کے لیے جہاز میں آؤں گا۔)
اس ٹپے میں قومی اسمبلی کے امیدوار کے نشان جہاز اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے نشان انار کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایک اور شاعر نے پشتو میں سیاست اور انتخابات سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ووٹ غوختلو لہ زئی بل کلی تہ، مونگہ دہ دی نہ معذرت کوو۔‘
اس میں شاعر اپنے متعلقہ امیدوار سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ووٹ مانگنے کے لیے کسی اور علاقے چلا جائے کیونکہ وہ ووٹ نہیں دے رہا۔
ایک اور صارف نے ایک ویڈیو میں الیکشن پر پوری نظم ہی لکھ دی۔ شاعر نظم کا آغاز کرتے ہوئے الیکشن کی آمد پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں:
نئی ہے ڈھولکی وہی سُر تال ہے پگلے
الیکشن سال آیا ہے الیکشن سال ہے پگلے
اسی طرح کی نظم شاعر محمد عارف انجم نے بھی شیئر کی جس کے پہلے شعر میں انہوں نے لکھا:
آؤ پھر سے خواب دیکھیں پھر سے الیکشن آیا ہے
آنے والا الیکشن ساتھ خوابوں کا خزانہ لایا ہے
مقطع میں وہ امیدوارں کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
سڑکیں پارک بنیں گے، کالج یونیورسٹیاں اور ہسپتال
امیدواران نے جی بھر کے عوام کو مکھن لگایا ہے
اسی طرح محمد زبیر غازی نامی صارف نے مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل سے ایک شعر مستعار لے کر الیکشن مہم اور امیدواروں کے بہانوں پر طنز کیا ہے:
تیرے وعدے پر جیے ہم تو جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
کئی صارفین الیکشن سے منسوب ایسے اشعار بھی لکھ رہے ہیں جن میں وہ اپنی محبوب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے پانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ اِس خواہش کے اظہار میں ایک صارف دھاندلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کاش دلوں کے بھی الیکشن ہوتے مرشد
ہم دھاندلی کر کے تمہیں جیت جاتے

حالیہ انتخابی مہم کے دوران این اے 127 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار عطا اللہ تارڑ سے کسی نے اشعار سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے پنجابی زبان کے چند اشعار سناتے ہوئے کہا:
تینوں ظلم تو ڈکنانئیں
بس اینی گل سمجھانی اے
ویلے دی اے واگ ویریا ساڈے ہتھ وی آنی اے
اسی تے پاگل دیوانے آں تو ساڈے نال نہ ویر ودا
اسی تے جان تلی تے رکھی توں نٹھ نٹھ جان بچانی اے
ویلے دی اے واگ ویریا ساڈے ہتھ وی آنی اے
اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر مبارک صدیقی کی نظم ’ایسے رہبر کو ووٹ دینا‘ بھی شئیر ہو رہی ہے۔ اس میں ووٹرز کو ایک ایسے رہبر کو ووٹ دینے کے لیے تحریک دی گئی ہے جو قوم کے مستقبل کو سنوار دے۔ اس نظم کے پہلے بند میں وہ لکھتے ہیں:
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے
اُداس چہرے گُلاب کر دے
جو ظُلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
کچھ اسی طرح کی درخواست محمد عارف انجم نے اپنی ایک اور نظم میں کی ہے:
آجاؤ ووٹ پائیے
اپنا ممبر آپ بنائیے
اج موقع ساڈے لئی
اینوں ہتھوں نہ گنوائیے
الیکشن دا حصہ بن کے
اپنے کل نوں بہتر بنائیے
آجاؤ ووٹ پائیے
راوالپنڈی سے تعلق رکھنے والے شاعر عنصر محمود اعوان نے عمران خان کی قید اور الیکشن کے تناظر میں نظم میں لکھا:
میرے کپتان نوں قید کرا بیٹھے آں
بلے دا نشان وی ہتھیا بیٹھے آں
ساڈی گل ہوگئی اے ڈیڈی نال
ایہو الیکشن کمپئن چلوا بیٹھے آں
توجہ ہٹان تے الیکشن رکوان دی خاظر
گنوانڈیاں نال متھا لا بیٹھے آں
صارفین اپنے من پسند سیاستدانوں کے لیے مختلف اشعار خود بھی لکھتے ہیں جبکہ کئی اشعار مشہور شعرا سے مستعار لے کر یا تو تنقید کی جاتی ہے یا پھر کسی کی مدح سرائی میں شیئر کیے جاتے ہیں۔ کئی صارفین اکبر الہ آبادی کا یہ شعر طنزیہ طور پر شیئر کر رہے ہیں:
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
اسی طرح صارفین الیکشن منعقد ہونے سے قبل ہی الیکشن کے بعد کے مناظر کو مختلف اشعار میں بیان کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ سیاستدانوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الیکشن کے بعد کا منظر یہ ہوتا ہے
آشنا ہو چکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا
ایک اور صارف نے اسی حوالے سے لکھا کہ الیکشن کے دنوں میں سیاست دانوں کی عام عوام سے ہمدردی دیکھ کر بہت ہی پیارے شاعر فیض احمد فیض کا ایک شعر یاد آ گیا۔
آئے تو یوں جیسے ہمشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
ایک صارف نے الیکشن کی مصروفیت سے فراغت کے بعد چائے پر ملاقات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا:
یہ الیکشن کے دن گزر جائیں تو پھر
اک ملاقات رکھیں گے چائے پر تم سے

شیئر: