Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر پر ’بجٹ اجلاس‘ ، کیا نواز شریف سُپر پرائم منسٹر بننے جا رہے ہیں؟

نواز شریف پارٹی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد حکومتی معاملات میں پہلی مرتبہ متحرک نظر آئے (فائل فوٹو: (مسلم لیگ ن))
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے بدھ کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ جاتی امرا میں بجٹ سے متعلق اجلاس کی صدارت کی ہے۔
اس اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے علاوہ کئی وفاقی و صوبائی وزرا اور سرکاری افسران نے شرکت کی۔
نواز شریف جب مشرف دور میں جلاوطنی ختم کرکے پاکستان پہنچے تھے تو انہوں نے  ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اس وجہ سے ہو جاتی ہے کیونکہ وہ وزیراعظم کے اوپر کسی سُپر پرائم منسٹر کو نہیں مانتے۔ غالباً ان کا اشارہ فوج کے سربراہ کی طرف تھا۔
تاہم بدھ کو لاہور کے جاتی امرا میں بظاہر بجٹ سے متعلق ایک اجلاس ہوا جس کی صدارت نواز شریف نے کی،  اس اجلاس سے متعلق سرکاری طور پر کسی طرح کی کوئی معلومات میڈیا کے لیے جاری نہیں کی گئیں۔
صبح 11 بجے وزیراعظم شہباز شریف اپنے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جاتی امرا پہنچے۔ اس کے بعد دیگر وزرا اور سرکاری افسران کی آمد شروع ہو گئی۔
چار گھنٹے جاری رہنے والے اس طویل اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزرا ڈاکٹر مصدق ملک، اویس لغاری، رانا تنویر حسین، عطاء اللہ تارڑ، جام کمال، رانا تنویر حسین ، سینیٹر پرویز رشید ، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز سمیت دیگر  شریک ہوئے۔
وفاقی و صوبائی محکموں کے مختلف سیکرٹریز بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس اجلاس میں موجود ایک لیگی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ پارٹی کا ایک مشاورتی اجلاس تھا جس میں بجٹ سے متعلق تجاویز زیرِبحث آئیں۔ یہ طے کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر عوام کو ہر ممکن ریلیف مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ وفاقی وزرا بھی تھے انہوں نے بھی اپنے اپنے محکموں سے متعلق بریف کیا۔ نواز شریف صاحب نے سب کو سنا اور کچھ تجاویز انہوں نے بھی دیں‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعظم بھی اس مشاورتی اجلاس میں موجود تھے۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ہر طرح کی کوشش کی جائے گی کہ عام لوگوں پر بجٹ کا بوجھ کم سے کم پڑے۔‘
ایک روز قبل نواز شریف کو پارٹی صدارت کا عہدہ دیے جانے کے بعد وہ حکومتی معاملات میں بھی پہلی مرتبہ ہی متحرک نظر آئے ہیں۔
اس سے پہلے وہ دو پنجاب حکومت کے دو اجلاسوں میں خود شریک ہوئے۔ تاہم وفاقی حکومت کے معاملات کو انہوں کبھی اسی طرح واضح طور پر نہیں دیکھا۔
ایسے میں سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایک پارٹی صدر حکومتی معاملات براہ راست چلا سکتا ہے؟
آئینی ماہر سمیر کھوسہ کہتے ہیں کہ اس بات کے دو پہلو ہیں ’ایک یہ ہے وزیراعظم اور وزرا چونکہ خود بھی سیاسی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں اور اگر تو ایک سیاسی اجلاس ہو جس میں سیاسی فیصلے کرنے ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘
’لیکن اہم بات یہ ہے کہ اجلاس کی نوعیت حکومتی معاملات چلانے کی ہو اور اس میں وفاقی سیکریٹریز بھی بیٹھے ہوں اور صوبائی۔ تو یہ صورت حال مختلف ہے کیونکہ ایسے اجلاس میں قانونی سقم ضرور ہے ۔‘
پاکستانی آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی سربراہ کے اختیارات کو خاصا مضبوط کیا گیا ہے، خاص طور پر اس کی ہدایات کے برعکس اسمبلی کے اندر ووٹنگ کے عمل کا حصہ بننے سے اراکین اسمبلی نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔
سینیئر قانون دان حامد خان کہتے ہیں کہ ’آئین پارٹی سربراہ کے حوالے سے واضح ہے۔ اور یہ درست بات ہے کہ 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ سیاسی اختیار ہیں۔ ان اختیارات کا تعلق اسمبلی کے فلور کی حد تک ہے۔ حکومتی معاملات دوسرا معاملہ ہے۔ حکومتی معاملات پرائیویٹ پارٹی افئیر نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر کون پوچھتا ہے۔‘
تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف خود میں قومی اسمبلی کے رکن ہیں، حکومت کا حصہ ہیں اور ایک پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ ایک غیرضروری بحث ہے۔ وہ تین بار کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں جو تجربہ ان کے پاس ہے، وہ اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ اجلاس مکمل طور پر قانونی ہے۔‘

شیئر: