Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ کی صدارت سنبھالنے کے بعد پہلا خطاب، ’نواز شریف کا ٹارگٹ اب عمران خان‘

نواز شریف نے شہباز شریف کو تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مجھ سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی (فوٹو: مسلم لیگ ن)
پاکستان مسلم لیگ ن نے منگل کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کر لیا ہے ۔ انہوں نے صدارت کے منصب سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں اپنے روایتی انداز کو برقرار رکھا اور ماضی میں اپنی حکومتوں کو گرائے جانے پر سوال پوچھتے نظر آئے۔
نواز شریف نے اپنی تقریر میں بانی چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور 2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اپنی حکومت ختم ہونے کا ذمہ دار بھی انہیں قرار دیا۔
ان کی تقریر میں اپنے ماضی کے کارناموں کی جھلک بھی نظر آئی اور ان افراد پر تنقید بھی جن کو وہ اپنی سابقہ حکومت کے ختم ہونے کا سبب سمجھتے ہیں۔
اس موقعے پر نواز شریف نے شہباز شریف کو تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مجھ  سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی، ان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے سارے آفرز ٹھکرا دیے۔‘
نواز شریف نے کہا کہ ہمارے خلاف سارے جھوٹے کیسز بنائے گئے اور پارٹی کا ستیاناس کیا گیا۔ آج تو عمران خان کے خلاف تو سارے کیسز سچے ہیں۔
’2013 میں خود چل کر عمران خان کے پاس گیا اور ان کو مل کر چلنے کا کہا، میٹنگ کا احتتام بنی گالہ کی سڑک بنوانے کے مطالبے پر ختم ہوا۔ لیکن اس کے بعد موصوف لندن چلے گئے جہاں ایک جنرل بھی تھے اور ایک مولانا صاحب کینیڈا سے بھی آئے تھے۔ ایک صحافی نے اس میٹنگ کی پوری روداد بیان کی ہے اور جنرل ظہیر اسلام نے خود بتایا کہ ہم نے تیسری فورس کو لانے کا فیصلہ کیا۔‘
نواز شریف نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا وہ تیسری فورس آپ نہیں تھے۔؟ آپ کہہ دیں کہ وہ تیسری فورس آپ نہیں تھے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ کیا امپائر کی انگلی کا ذکر آپ نہیں کر رہے تھے؟‘
سیاسی مبصرین ان کی تقریر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ تقریر میں نئی بات کوئی نہیں تھی۔
Image
مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے ملک بھر سے پارٹی کے رہنما لاہور پہنچے (فوٹو: مسلم لیگ ن) 

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے اب نواز شریف کو ماضی کے حصار سے نکلنا ہو گا۔ ان کی ساری باتیں ٹھیک ہیں، ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ ان کی حکومتیں گرائی گئیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اب جن مشکلات کا اس ملک کو سامنا ہے،ان کا حل ماضی کی باتوں میں نہیں ہے ۔ انہیں مستقبل کا قابلِ عمل نقشہ دینا چاہیے اور عوام کو بتانا چاہیے کہ اب ان کی جماعت کیسے پاکستان کو مہنگائی اور بیروزگاری سے باہر نکال رہی ہے۔‘
’اب وہ پارٹی کے صدر بھی بن چکے ہیں تو اب ساری ذمہ داری ان کی ہے۔‘
نواز شریف کی تقریر پر اپنے تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’ویسے میاں صاحب کی ساری باتیں پرانی تھیں لیکن جو مجھے محسوس ہوا وہ یہ کہ انہوں نے ایک جج اور ایک سابق جرنیل کا تھوڑا بہت ذکر تو کیا لیکن ان کا ٹارگٹ زیادہ عمران خان نظر آئے۔ اگر ان کے فوکس کی بات کی جائے تو وہ پہلے یوں عمران خان کی طرف نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں ایک طویل عرصہ خاموش بھی رہنا پڑا تھا۔ باقی یہ پارٹی ان کی ہے اور یہ منصب بھی ان کا ہے جو انہوں نے واپس لے لیا ہے۔‘
نواز شریف نے اپنی تقریر میں سابق آئی ایس آئی چیف ظہیر الاسلام پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
صدر بننے کے بعد انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہی کہا کہ ’آج ان کی پارٹی نے ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کا اجلاس لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوا (فوٹو: سکرین گریب)

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں سپریم کورٹ نے انہیں رکن اسمبلی بننے کے لیے تاحیات نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی صدارت کے لیے تاحیات نااہل کر دیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف اب اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ ان کو موجودہ حالات کے ساتھ ہی چلنا ہے اس لیے انہوں نے پارٹی کی صدارت کی شکل میں ایک قانونی کور حاصل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف جو تقریر کرتے ہیں، وہ ان کے کارکنوں کے لیے ہوتی ہے۔ لیڈر عام طور پر اپنی بات بار بار دہراتے ہی رہتے ہیں تاکہ وہ ان کے کارکنوں کے ذہنوں میں نقش ہو جائے۔‘
’عمران خان بھی یہی کرتے رہے ہیں اور ان کی تقاریر پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی باتوں کو دہراتے ہیں۔ یہ ابلاغی حکمت عملی ہے۔‘

شیئر: