Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دوسرا خانہ‘ ہی آپ کی زندگی بدل سکتا ہے، عامر خاکوانی کا کالم

ہم نہیں سمجھ رہے کہ بیوی بچوں کے لیے کم وقت سہی، مگر انہیں کوالٹی ٹائم دینا ضروری ہے (فوٹو: پکسابے)
یہ بات بہت سال پہلے پڑھی تھی، بھول نہیں سکا۔ میری زندگی پر جن چند چیزوں کے ان مٹ اور گہرے نقوش ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے۔ بات بہت آسان اور سادہ ہے۔ اپنے معمولات زندگی کو چار خانوں میں تقسیم کر دیں۔
پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا۔ آگے جا کر ان کی مختصر تفصیل بتاتا ہوں، بس یہ سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی دوسرا خانہ (کواڈرنٹ ٹو) ہی بدل سکتا ہے۔ میری زندگی اس اصول کو جاننے اور سمجھنے سے پہلے بالکل مختلف تھی۔
ایک بڑا مشہور مسئلہ یا مرض ہے جسے انگریزی میں ’پروکراسٹی نیشن‘ کہتے ہیں، سادہ مفہوم ہے بغیر کسی وجہ کے اہم کاموں کو لٹکائے رکھنا، تاخیر سے سرانجام دینا۔ اردو میں سستی، کاہلی، بے پروائی وغیرہ سمجھ لیں۔
یہ خاکسار تب ’پروکاسٹی نیشن‘ کا چلتا پھرتا اشتہار بن چکا تھا۔ میری عادت تھی ہر اہم معاملے کو لٹکائے رکھنا، بروقت فیصلہ نہ کرنا، اس پر عمل درآمد نہ کرنا۔ اسی وجہ سے اکثر گھر کے یوٹیلٹی بلز لیٹ ہوجاتے، خواہ مخواہ جرمانہ لگ جاتا، بچوں کی سکول فیسوں کے پیسے ہونے کے باوجود خواہ مخواہ دیر سے جرمانے کے ساتھ جمع کرانا۔ کریڈٹ کارڈ بنوایا تھا تو اس کی قسطیں ہمیشہ دیر سے بھری جاتیں، اب تو خیر سے کریڈٹ کارڈ ہی سے توبہ کر لی۔ اپنی صحت کے حوالے سے بے پروا ئی برتنا۔ وقت پر ٹیسٹ نہ کرانا، دوائیوں میں ناغے وغیرہ۔
کئی اہم اسائنمنٹس پوری نہ ہوسکیں۔ اہم ملاقاتیں کینسل ہوگئیں۔ دراصل میں ڈیڈلائن سنڈروم کے شکار لوگوں میں سے ہوں۔ جب تک ڈیڈلائن سر پر نہ آجائے، ہم ہلتے نہیں۔ ڈیڈلائن کے دباﺅ میں کچھ کام تو ہوجاتے ہیں، مگر کئی بار کچھ ایسا غیرمتوقع، مگر ہنگامی نوعیت کا معاملہ سامنے آجاتا ہے کہ جو چیزیں ڈیڈلائن کے سرے پر تھیں، وہ پھسل گئیں۔ بل جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی، مگر اچانک کچھ ایسا ہوا کہ سب کچھ ذہن سے نکل گیا، وغیرہ وغیرہ۔
 ایسے میں ایک کتاب میرے ہاتھ لگی، اسے پڑھتے ہوئے بہت کچھ نیا، اہم اور دلچسپ جاننے کو ملا۔ ان میں سے ایک مشن سٹیٹمنٹ بھی تھا، اس پر خیر پھر کبھی سہی۔ اسی میں ان چار خانوں پر ایک الگ سے پورا باب تھا۔ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد عمل کرنے کی کوشش کی اور بہت سی چیزیں ٹھیک ہوگئیں۔
اب کئی برسوں سے میرے تمام بلز اِن ٹائم بھرے جاتے ہیں، اہم اسائنمنٹس اور ملاقاتوں میں تعطل نہیں آتا۔ کالم لکھنے کی رفتار بڑھ گئی۔ پچھلے چند برسوں میں چار کتابیں چھپ گئیں جبکہ اس سال امید ہے کہ ایک یا دو مزید کتابیں چھپ جائیں گی۔ میں مانتا ہوں کہ اپنے سیلف ڈسپلن کو زیادہ بہتر کیا جا سکتا ہے، اگر کر لیتا تو عین ممکن ہے کامیابیاں زیادہ ہوجاتیں۔ اب ان چار خانوں کی طرف آتے ہیں۔
ایک سادہ کاغذ لیں۔ اس میں پلس (جمع) کے نشان جیسی د و بڑی لکیریں لگائیں۔ یوں چار خانے بن جائیں گے۔ افقی لکیر کے بائیں جانب لکھیں ارجنٹ اور دائیں جانب نان ارجنٹ جبکہ عمودی لکیر یعنی اوپر کی طرف لکھیں اہم، جبکہ اس لکیر کے اینڈ پر یعنی نچلی طرف لکھیں غیر اہم۔ چاہیں تو اسے باکس کی شکل دے دیں۔

۔ اپنے معمولات زندگی کو چار خانوں میں تقسیم کر دیں (فوٹو: پکسابے)

یوں چار خانے بن جائیں گے۔ پہلا خانہ اہم اور ارجنٹ۔ دوسرا خانہ اہم اور نان ارجنٹ۔ تیسرا خانہ غیر اہم، ارجنٹ ، جبکہ چوتھا خانہ بن گیا غیر اہم، نان ارجنٹ۔ اب اپنی زندگی کے معمولات کا جائزہ لیں اور انہیں ان چار خانوں میں فٹ کرنے کی کوشش کریں۔
پہلے خانے میں وہ کام جو ارجنٹ اور اہم ہیں۔ بچوں کے سکول کالج کی فیسوں اور یوٹیلی بلز کی آخری تاریخ ہے تو اسے ہر حال میں کرنا ہوگا۔ اپنے تعلیمی ادارے، دفتر وغیرہ کی کوئی اسائنمنٹ، پریزینٹیشن جو کل ہونی ہے تو اسے بھی پہلے خانے میں ڈال دیں۔ بیوی یا کسی بچے کی سالگرہ ہے تو یہ فوری اور اہم نوعیت کا معاملہ ہے۔ سب کام ترک کر کے اس تقریب میں بروقت شامل ہونا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
کسی میٹنگ میں جا رہے ہیں، عین وقت پر گاڑی خراب ہوجائے، اس سے پہلے اشارے مل رہے تھے کہ گڑبڑ ہو رہی ہے، مکینیک کو دکھا دیا جائے، مگر سستی کی اور پھر اب اچانک بحران پیدا ہوگیا۔ اب سب سے پہلے گاڑی مکینک کے پاس ہی لے کر جانی ہے، اہم ملاقات گئی بھاڑ میں۔ اس لیے اس پہلے خانے یا کواڈرینٹ ون کو بنیادی طور پر فائر فائٹنگ سمجھ لیں، آگ بجھانے والی سرگرمی، بحران کو ڈیل کرنا۔
 دوسرے خانے یا کویڈرینٹ ٹو میں وہ معاملات ہوں گے جو فوری نوعیت کے نہیں، مگر ہیں وہ اہم۔ جیسے اپنی صحت کے معاملات۔ کچھ چیزیں گڑبڑ ہو رہی ہیں، مگر چونکہ ابھی بحران پیدا نہیں ہوا تو ہم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے، بروقت ٹیسٹ نہیں کراتے۔ اسی طرح اپنی پروفیشنل گروتھ کا معاملہ ہے۔ اس میں اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا پڑتا ہے، مگر چونکہ فوری ضرورت نہیں، اس لیے ہم پروا نہیں کرتے، نئی چیزیں، نئے سکلز نہیں سیکھتے، اپنی کیپسیٹی بلڈنگ نہیں کرتے۔
تعلقات یا ریلیشن شپ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اپنی نوکری کی مصروفیت یا کامیابی کے لیے جتے ہونے کی صورت میں بیوی نظرانداز ہو رہی ہے، مگر ہم نہیں سمجھ رہے کہ بیوی بچوں کے لیے کم وقت سہی، مگر کوالٹی ٹائم انہیں دینا کس قدر ضروری ہے۔ ایک دن جب اس حوالے سے دھماکہ ہوگا تب چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔
دوستوں کے لیے وقت نہیں نکال رہے ہوتے کیونکہ اس کے بغیر کام چل رہا ہے۔ جب ہمیں دوستوں کی ضرورت پڑے، تب تک وہ دور جا چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اپنے لیے کوالٹی انٹرٹینمنٹ کا وقت بھی نہیں نکل رہا ہوتا۔

گھنٹوں فیس بک پر وقت گزارنا، کمنٹس اور لائیک کی دوڑ میں جتے رہنے کو ٹائم ویسٹ خانہ کہا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی کے معمولات میں اس دوسرے خانے کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے ہمیں اس حوالے سے زیادہ وقت لگانا چاہیے۔ خرابیاں پیدا ہونے سے پہلے ان کا توڑ کریں، معاملات بگڑنے سے پہلے سنبھال لیں، بروقت توجہ کریں تاکہ بحرانی کیفیت پیدا نہ ہوسکے۔ اپنے مستقبل کے لیے بیٹھ کر پلاننگ کریں اور اپنی جسمانی، ذہنی صحت کے لیے کوالٹی وقت نکالیں۔ اس لیے جہاں پہلے خانے کو فائر فائٹنگ کہا جاتا ہے، دوسرے خانے کو کوالٹی ٹائم یا مفید وقت کا نام دیا گیا۔
 تیسرا خانہ غیر اہم مگر ارجنٹ مصروفیات کا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے وہ کام جو ہماری توجہ بھٹکاتے اور وقت ضائع کرتے ہیں۔ جیسے اچانک بغیر وقت لیے کوئی ملنے آدھمکے۔ دوسرے شہر سے کوئی ایسا مہمان آ جائے جسے اٹینڈ کرنا آپ کی مجبوری ہو۔ فون کال، ای میل، واٹس ایپ میسجز کا جواب دینا وغیرہ۔ فیس بک پر کسی پھڑکتے ہوئے ایشو پر کوئی آپ کو مینشن کر دے اور آپ کے لیے کمنٹ کیے بغیر رہا نہ جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تیسرا خانہ توجہ ہٹانے والا کہلاتا ہے۔
 چوتھا خانہ غیر اہم، نان ارجنٹ ہے یعنی ہر لحاظ سے وقت اور اپنی صلاحیتوں کا اجاڑا، وقت کا ضیاع ۔ بیکار ای میلز کا جواب دینا، گھنٹوں فیس بک پر وقت گزارنا، کمنٹس اور لائیک کی دوڑ میں جتے رہنا۔ کئی گھنٹے ٹی وی یا نیٹ فلیکس وغیرہ پر لگے رہنا۔ روزانہ گھنٹوں فون کالز پر گوسپ کرنا وغیرہ۔ اسے اس لیے ٹائم ویسٹ خانہ کہا جاتا ہے۔
 اب سیکرٹ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو مینیج کریں، دوسرے خانے میں کچھ زیادہ وقت گزاریں۔ مسائل بڑھنے سے پہلے ان کا حل تلاش کریں۔ اپنی بائیک، گاڑی وغیرہ کو ٹھیک کراتے رہیں۔ اپنی صحت کے لیے بھی ہوشیار اور خبردار رہیں، خاص کر اگر آپ چالیس سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرائیں، ڈاکٹر سے بھی ملتے رہیں۔ اگر شوگر، بلڈ پریشر یا دل کے مریض ہیں تو باقاعدگی سے دوائی لیں اور اپنے ڈاکٹر کا فالواپ وزٹ کریں۔
یوٹیلٹی بلز اور سکول وغیرہ کی فیسیں وقت پر ادا کر دیں، آخری تاریخ کا انتظار نہ کریں۔ اپنے فون میں بینکنگ ایپ انسٹال کریں اور بجلی، گیس، انٹرنیٹ کے بلز تو فون سے فوری ادا کر دیا کریں۔ اپنے گھر اور بیوی بچوں کے لیے وقت نکالتے رہیں۔ اگر لگے کہ اہلیہ کے ساتھ کچھ غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے، وہ وقت نہ دینے پر شاکی ہے تو اس سے بیٹھ کر بات کریں، اعتماد میں لیں اور اگر افورڈ کر سکیں تو ہر سیزن میں ایک آدھ بار کسی تفریحی  مقام پر چند دن گزاریں اور وہاں پر اپنے موبائل فون سے دور رہیں۔

لوگ ناخوش ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکومتیں بے خبر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یار دوستوں کو بھی وقت دیتے رہیں۔ میرے ایک دوست کی عادت ہے کہ وہ ہر روز اپنے ایک قریبی رشتے دار( بہن ، بھائی ، انکل وغیرہ ) کو لازمی فون کرتا ہے اور اس کے مطابق وہ روزانہ کم از کم ایک بار اپنے کسی دوست سے بھی اِن ٹچ رہتا ہے۔ اس کا طریقہ ہے کہ فون کال کر لی، ورنہ خیر خیریت کا آڈیو میسج دو تین دوستوں کو بھیج دیا، یوں ایک رابطہ کی صورت بنی رہی۔
یہ تو ہوئے انفرادی معاملات، مگر میرے خیال میں فرد جیسا معاملہ ریاست یا حکومت کا بھی رہتا ہے۔ ریاست بھی اپنی ساخت میں ایک طرح سے فرد کا مِرر امیج ہی ہے۔ ریاستی اداروں اور حکومتوں کو بھی بروقت پلاننگ کرنی چاہیے۔ ہماری حکومتیں بھی اپنا زیادہ تر وقت پہلے اور تیسرے خانے میں گزارتی ہیں۔ جب تک کوئی معاملہ بحران نہ بن جائے، تب تک وہ ادھر توجہ ہی نہیں کرتیں۔ لوگ ناخوش ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکومتیں بے خبر ہیں، پھر جب اچانک لاوا پھوٹ پڑے، عوامی دھماکہ ہو، تب دوڑیں لگ جاتی ہے۔
بہت بار اتنی تاخیر ہوچکی ہوتی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ اب یہی غیر ملکی قرضوں والا معاملہ دیکھ لیں۔ اگر ہماری پچھلے بیس سال کی حکومتیں اس طرف توجہ دیتیں تو آج اتنا بڑا بحران پیدا نہ ہوتا کہ بجٹ کا نصف سے زیادہ صرف سود کی ادائیگی پر صرف ہو رہا ہے۔
پچھلے دو تین ادوار میں لوڈ شیڈنگ کے بحران کو نمٹانے میں اتنی عجلت اور بے تدبیری سے کام لیا گیا کہ آج آئی پی پیز سے لازمی بجلی خریدنے کی شرط ریاست کا گلا گھونٹ رہی ہے، سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سے کیسے نکلیں۔ اگر پلاننگ میں کوالٹی وقت لگایا ہوتا، چند سال آگے کا سوچ لیا جاتا تو یہ بحران پیدا ہی نہیں ہونا تھا۔
بات وہی ہے کہ ایک آدمی ہو یا کوئی گروہ، تنظیم، کمپنی، انڈسٹری یا پورا ملک، اگر ہم دوسرے خانے کو نظرانداز کرکے پہلے اور تیسرے خانے کے اسیر بنے رہیں گے تو بحران در بحران کا شکار ہی رہیں گے۔ ہمیں صرف دوسرا خانہ ہی بچا سکتا ہے، یہی ہماری کامیابی کی امید اور ضمانت ہے۔

شیئر: