رمضان کے آخری عشرے کے ایام ہیں۔ سیاست کی کھِچ کھِچ سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔
دو حکایات یا اقوال دانش کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، ایک قدیم اور دوسرا جدید آج کے زمانے کا۔ اس سے پہلے مگر تھوڑا بیک گراؤنڈ کہ اس کی ضرورت کیوں آ پڑی ؟
کچھ عرصہ قبل ایک محفل میں ایک وکیل صاحب کے ساتھ دلچسپ گپ شپ ہوئی۔ وہ فیملی کیسز کی پریکٹس کرتے ہیں اور ان کے پاس طلاق، خلع کے بہت سے کیسز رہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ میڈیا پر کرنٹ افیئرز اور سیاسی بحث مباحثوں میں بہت وقت ضائع کرتے ہیں ، کبھی کوئی ٹی وی پروگرام یا اخبار کے کالموں میں سوشل ایشوز بھی زیربحث لایا کریں۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 840371
-
ہم کتنا کچھ جانتے ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 845561
پھر بتانے لگے ،’ذرا تحقیق کر کے دیکھیں کہ پچھلے چھ آٹھ ماہ میں کتنی زیادہ طلاقیں اور خلع ہوئی ہیں؟ پچھلے چند برسوں سے گھرجس خوفناک رفتار سے ٹوٹ رہے ہیں، آپ لوگوں کو شاید اس کا اندازہ تک نہیں۔ طلاق کیسز تو چلتے رہتے تھے، مگر اب عدالتوں میں خلع کے کیس بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور زیادہ تر معاملات میں شادی کے پہلے سال ڈیڑھ کے اندر ہی ایسا ہو رہا ہے۔‘
وکیل صاحب کے مطابق خلع کے نوے پچانوے بلکہ سو فی صد کیسز عورت کے حق میں جاتے ہیں، کچھ عرصہ میں طلاق ہوجاتی ہے۔بہت بار عدالتوں میں دیکھا ہے کہ طلاق کے بعد چھوٹے بچوں کی تقسیم بڑا جذباتی معاملہ بن جاتا ہے۔ فریق آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ اس سب کے سدباب کے لیے آپ لوگ لکھیں یا پروگرام کریں۔
اس گفتگو کے بعد میں سوچتا رہا، ادھر اُدھر معلومات کیں تو پتہ چلا کہ واقعی یہ معاملہ بہت پریشان کن ہوچکا ہے۔ ماں باپ بڑے چاؤ سے شادیاں کرتے ہیں۔ بہو لے آتے ہیں یا بیٹی رخصت کرتے ہیں۔ پہلے دوسرے سال ہی معاملہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ آگے بڑھنا ممکن نہیں لگتا۔ تب یا تو کورٹ سے باہر سیٹلمنٹ کر کے طلاق ہوجاتی ہے یا پھر لڑکی عدالت میں جا کر خلع لے لیتی ہے۔
مجھے چند سال پہلے اپنے ایک دوست کے والد کا قصہ یاد آیا۔ ان کے گھر ایک دو دن مہمان رہنے کا اتفاق ہوا۔ محسوس کیا کہ ان کے گھر میں بڑی خیروبرکت ہے، گھریلوماحول بھی خوشگوار ہے۔ ساس سسر اور بہو کا باہمی تعلق بھی بڑا خالص اور محبت آمیز لگا۔ دوست کے والد بڑے خوش مزاج آدمی تھے، گپ شپ کرنے والے۔ باتوں میں آخر پوچھ ہی لیا کہ آپ کے گھریلو ماحول کو دیکھ کر بڑا اچھا لگا، مگر اس کا راز کیا ہے۔ یہ بات سن کر پہلے تو وہ مسکراتے رہے، پھر کہنے لگے کہ کتابوں میں ایک پرانے بزرگ کا قصہ پڑھا تھا، اسے ہم نے اپنے گھر میں آزمایا تویہ خوشگوار نتیجہ سامنے آیا۔
بتانے لگے کہ کسی جگہ بزرگ محبت اور اخلاقی تعلیمات سے استفادہ کرتے رہتے۔ ایک بار کسی دوسرے علاقہ سے ایک بزرگ آئے اور اسی بستی میں ڈیرہ ڈال دیا۔
چند دن گزرگئے تو جوبزرگ عرصے سے وہاں رہ رہے تھے، انہوں نے اپنے ایک چاہنے والے کو دودھ کا پیالہ دے کر نووارد بزرگ کے پاس بھیجا۔وہ وہاں گیا اور ڈھکے ہوئے پیالے سے رومال ہٹا کر حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ دیکھ کر مسکرائے اور پھر پاس رکھی ہوئی گلاب کی چند پتیاں پیالے میں ڈال دیں۔ پیالے کو پھر سے ڈھک کر واپس بھیج دیا۔ مرید واپس پہنچا، ماجرا سنایا اور پیالہ دکھایا۔ دودھ میں تیرتی گلاب کی پتیاں دیکھ کر وہ بھی مسکرائے اور پھر خاموشی سے پیالہ سائیڈ میں رکھ دیا۔
چاہنے والا ان کا مزاج شناس اور خاص خدمت گزار تھا۔ اس نے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا۔جواب ملا، ہم نے دودھ سے بھرا پیالہ مہمان کو بھیجا، اس میں پیغام تھا کہ ہم پہلے سے یہاں موجود ہیں، اور اس موجودگی کی وجہ سے علاقہ بھر میں اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے گلاب کی پتیاں ڈال کر یہ جواب دیا کہ وہ اس علاقہ میں خاموشی سے اس طرح مقیم رہیں گے جیسے دودھ کے پیالے میں تیرتی گلاب کی پتیاں، جو اپنی خوشبو سے کیفیت کو بڑھا رہی ہیں، تصاد م نہیں۔
مزید پڑھیں
-
فلم ’کبھی الوداع نہ کہنا‘ انڈیا میں طلاقوں کا سبب کیوں بنی؟Node ID: 814906