Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی، صدر بائیدن نے مجوزہ معاہدہ پیش کر دیا

صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ’یہ حقیقی طور پر ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی طرف سے حماس کے عسکریت پسندوں کے لیے تجویز کردہ تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کی تفصیل جاری کی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق امریکی صدر نے کہا ہے کہ یہ مجوزہ معاہدہ غزہ میں بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گا اور تقریباً 8 ماہ سے جاری مشرق وسطیٰ کی جنگ کو ختم کر سکتا ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اب اسرائیل پر بڑے پیمانے پر کسی اور حملہ کرنے کی ’قابل نہیں رہی‘ ہے۔
امریکی صدر نے اسرائیلیوں اور حماس پر زور دیا کہ وہ ایک توسیع شدہ جنگ بندی کے لیے باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدہ کریں۔
ڈیموکریٹک صدر نے وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں اس تجویز کو ’ایک پائیدار جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا روڈ میپ‘ قرار دیا ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ مجوزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں ’مکمل اور حتمی جنگ بندی‘، غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور خواتین سمیت متعدد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جس کے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اس مرحلے میں غزہ سے امریکی یرغمالیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا، اور مارے گئے یرغمالیوں کی باقیات ان کے اہل خانہ کو واپس کر دی جائیں گی۔ پہلے مرحلے کے دوران انسانی امداد میں اضافہ ہوگا، ہر روز 600 ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں مرد فوجیوں سمیت باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہوگی اور اسرائیلی افواج غزہ سے انخلا کریں گی۔

اسرائیلی فوج کی عام شہریوں کے خلاف کارروائی پر بین الاقوامی تنقید بڑھ رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صدر بائیڈن نے کہا کہ ’اور جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہتی ہے، یہ عارضی جنگ بندی، اسرائیلی تجاویز کے الفاظ میں ’مستقل طور پر دشمنی کا خاتمہ‘ بن جائے گی۔‘
تیسرے مرحلے میں غزہ کی ایک بڑی تعمیر نو کے آغاز کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بعد تعمیرِ نو کے لیے دہائیاں درکار ہوں گی۔
تاہم صدر بائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ معاہدے کو اس کے ٹریک پر رکھنا مشکل ہو گا، کیونکہ پہلے مرحلے سے دوسرے مرحلے میں جانے کی تفصیلات پر ’گفت و شنید‘ ہوگی۔
صدر بائیڈن کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ اس کی افواج اب جنوبی غزہ شہر میں اپنی توسیعی کارروائی میں رفح کے وسطی علاقوں میں پیش رفت کر رہی ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ’یہ حقیقی طور پر ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حماس کے مطابق وہ جنگ بندی چاہتے ہیں تو اگر ’وہ واقعی ایسا چاہتے ہیں‘ تو اسرائیل کے ساتھ یہ مجوزہ مرحلہ وار معاہدہ یہ ثابت کرنے کا ایک موقع ہے۔ 

اسرائیلی وزیراعظم کا بیان

وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل نے مذاکرات کاروں کو غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ پیش کرنے کا اختیار دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی حکومت ہمارے یرغمالیوں کو جلد از جلد واپس لانے کی خواہش میں متحد اور اس مقصد کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔‘
’لہذا، وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کو اس مقصد کے حصول کے لیے ایک خاکہ پیش کرنے کا اختیار دیا ہے، اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اس کے تمام اہداف حاصل نہیں ہو جاتے، بشمول ہمارے تمام یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کی تباہی۔‘ 

اسرائیل کو غزہ میں منظم تباہی کی اُس کی حکمت عملی پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حماس کا مجوزہ معاہدے پر ردعمل

حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اعلان کردہ تین مرحلوں کی جنگ بندی کی تجویز کے مندرجات کے بارے میں مثبت سوچ رکھتی ہے۔
گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’حماس کسی بھی تجویز کے ساتھ مثبت اور تعمیری انداز میں نمٹنے کے لیے اپنی تیاری کی تصدیق کرتی ہے جس کی بنیاد غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی اور (اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا)، تعمیر نو (غزہ) اور بے گھر افراد کی اپنے علاقے کو واپسی پر ہو۔ قیدیوں کے تبادلے کے حقیقی معاہدے کی تکمیل، اگر قابض واضح طور پر اس طرح کے معاہدے کی مکمل پاسداری کرے۔‘
اسرائیل کو غزہ میں منظم تباہی کی اُس کی حکمت عملی پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے جس میں شہری آبادی کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا۔
وزارت صحت کے مطابق غزہ کے محصور علاقے میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں 36 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

شیئر: