کھانے کے شوقین ’فی البدیہہ‘ اداکار راج کپور جنہوں نے آخری دم تک فلموں پر راج کیا
کھانے کے شوقین ’فی البدیہہ‘ اداکار راج کپور جنہوں نے آخری دم تک فلموں پر راج کیا
اتوار 2 جون 2024 5:27
راحِل مرزا -نئی دہلی
راج کپور اور نرگس کی جوڑی کافی مشہور ہوئی اور دونوں نے اکٹھے کئی فلموں میں کام کیا (فائل فوٹو: ریڈٹ)
آباد نہیں برباد سہی، گاتا ہوں خوشی کے گیت مگر
زخموں سے بھرا سینہ ہے مرا ہنستی ہے مگر یہ مست نظر
یہ لافانی گیت مزاح اور رنج کا ایک امتزاج اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور یہی اوصاف، یعنی آنکھوں میں درد اور ہونٹوں پر مسکراہٹ اس گیت گانے والے ’آوارہ‘ کے اداکار اور پشاور کے نامور سپوت راج کپور ہیں۔
آج ہم انہیں اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ 14 دسمبر 1924 کو پشاور کے محلہ ڈھکی منور شاہ کی ایک حویلی میں پرتھوی راج کپور اور ان کی اہلیہ راما دیوی کے ہاں پیدا ہونے والے نیلی آنکھوں، سرخ و سفید رنگ کے بچے اور بالی وڈ کے پہلے ’شومین‘ نے آج ہی کے دن 36 سال قبل 1988 کو آنکھیں موند لی تھیں۔
پیدائش کے وقت ان کا نام رنبیر رکھا گیا لیکن انہوں نے اپنا فلمی نام راج رکھا اور آج ان کا ایک پوتا رنبیر ہے جو بالی وڈ کا معروف اداکار بھی ہے۔ کوئی راج کپور کو لشکری بلاتا تو کوئی گورا مگر دنیا میں وہ راج کپور یا اس کے انگریزی شارٹ آر کے نام سے مشہور ہوا۔
جس وقت انہوں نے فلم میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش شروع کی تو ان کے والد انڈسٹری میں اپنی جگہ مستحکم کر چکے تھے، اس کے باوجود یہ ایک سچائی ہے کہ راج کپور نے اپنا کیریئر اپنے دم پر بنایا۔ اس کے لیے انہوں نے کافی جدوجہد بھی کی۔
کہا جاتا ہے کہ انڈین سنیما کو بہترین فلمیں دینے والے بالی وڈ کے پہلے ’شومین‘ راج کپور کی بچپن سے ہی اداکار بننے کی خواہش تھی۔ چنانچہ چائلڈ ایکٹر کے طور پر 1935 کی فلم ’انقلاب‘ میں وہ صرف 9 سال کی عمر میں سلور سکرین پر چمکتے نظر آئے۔ انڈسٹری میں داخل ہونے کے لیے راج کپور کو نہ صرف کلیپر بوائے بننا پڑا بلکہ ہدایت کار کیدار شرما کا تھپڑ بھی کھانا پڑا۔
انڈسٹری میں بطور لیڈ رول ان کی پہلی فلم ’نیل کمل‘ کا قصہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ پرتھوی راج کپور نے اپنے بیٹے راج کپور کو کیدار شرما کے یونٹ میں کلیپر بوائے کے طور پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ فلم کی شوٹنگ کے وقت وہ اکثر آئینے کے سامنے چلے جاتے اور اپنے بال سنوارنے لگتے۔
کلیپر کے طور پر کام کرتے وقت ان کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح اُن کا چہرہ بھی کیمرے میں آجائے۔ ایک بار فلم ’وش کنیا‘ کی شوٹنگ کے دوران راج کپور کا چہرہ کیمرے کے سامنے آگیا اور جلد بازی میں فلم کے اداکار کی داڑھی کلیپ بورڈ میں اُلجھ کر نکل گئی، چنانچہ کیدار شرما نے راج کپور کو پاس بلاکر زور کا تھپڑ رسید کر دیا۔
کیدار شرما کو اس بات کا رات بھر افسوس رہا اور اگلے دن انہوں نے راج کپور کو اپنی نئی فلم ’نیل کمل‘ میں کام کرنے کی آفر دی جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔
راج کپور فلموں میں اداکاری کے ساتھ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے 1948 میں ’آر کے‘ بینر قائم کیا اور اس کے تحت اپنی پہلی فلم ’آگ‘ بنائی۔
اس کے بعد ریلیز ہونے والی فلم ’آوارہ‘ راج کپور کے کیریئر کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔ فلم کی کامیابی اور اس کے ٹائٹل سونگ ’آوارہ ہوں۔۔۔‘ نے راج کپور کو انڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شہرت بھی دلائی۔
فلموں میں ہمیشہ سے چند جوڑیاں کافی مشہور اور کامیاب رہی ہیں ان ہی میں سے ایک راج کپور اور نرگس کی بھی تھی۔ فلم ’آگ‘ کے بعد دونوں ’برسات‘ میں نظر آئے اور اس کے بعد یہ جوڑی ’انداز‘، ’جان پہچان‘، ’آوارہ‘، ’انہونی‘، ’آشیانہ‘، ’امبر‘، ’آہ‘، ’دھن‘، ’پانی‘، ’شری 420‘، ’جاگتے رہو‘ اور ’چوری چوری‘ میں نظر آئی۔ ان فلوں کے گیت آج بھی کافی مقبول ہیں چاہے وہ شری 420 کا ’پیار ہوا اقرار ہوا‘ یا پھر ’یہ رات بھیگی بھیگی‘ ہو۔ راج کپور فی البدیہہ اداکار تھے
راج کپور کے بے حد قریبی اُن کی فلموں سے اپنی ہدایت کاری شروع کرنے والے اور رشی کپور کے بچپن کے دوست راہل راویل نے راج کپور کی زندگی پر اپنی کتاب ’راج کپور دی ماسٹر ایٹ ورک‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک فلم کے دوران دلیپ کمار نے راج کپور کے بارے یہ کہا تھا کہ ’میتھڈ ایکٹنگ ایک ایسی چیز تھی جس پر اسے یقین نہیں تھا، وہ بے ساختہ ہونے پر یقین رکھتا تھا۔‘
’اداکار وہ ہوتا ہے جو اداکار کرتا ہے نہ کہ گھر جانے والا اور اپنے آپ کو اس کردار کے لیے تیار کرتا ہے، جسے کئی دنوں تک اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اداکار وہ ہوتا ہے جو شاٹ ختم ہوتے ہی کسی کردار کو اندر اور باہر نکال سکتا ہے۔‘
انہوں نے لکھا: ’دلیپ صاحب مجھے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ جب میں نے یہ فلم ’انداز‘ راج کپور کے ساتھ کی تھی، تو ہماری شوٹنگ صبح 10 بجے تھی۔ میں صبح 7 بجے سیٹ پر ہوتا تھا کیونکہ میں شاٹ تیار ہونے سے پہلے منظر کو پڑھنا چاہتا تھا، اسے سمجھنا چاہتا تھا اور اس کے لیے خود کو تیار کرنا چاہتا تھا۔‘
’اسی دوران راج شام 7 بجے سے صبح 6 بجے تک ’یوٹ پالش‘ کے لیے ساری رات شوٹنگ کرتا رہتا تھا، شوٹ کے بعد سٹوڈیو آتا اور میک اپ روم میں سو جاتا۔ پھر جب شاٹ تیار ہوتا تو ایک اسسٹنٹ اُسے جگا دیتا۔ وہ اٹھتا، اپنا چہرہ دھوتا اور اپنا چہرہ دھوتے ہوئے وہ اسسٹنٹ سے کہتا کہ وہ اس منظر کو اونچی آواز میں پڑھے۔ جب وہ تیار ہو رہا ہوتا تو اس دوران ایک یا دو بار اس منظر کو اسے سنایا جاتا۔‘
دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ ’میں سوچتا تھا کہ ایک اداکار کے طور پر اس کا سامنا کرنے کے لیے یہ میرے لیے بہت آسان ہوگا، لیکن جس لمحے وہ پرفارم کرنا شروع کرتا اور شاٹ مکمل ہوتا، پورا یونٹ کھڑا ہو جاتا اور اس کے لیے تالیاں بجاتا۔‘
’کوئی بھی میرے لیے تالیاں نہیں بجاتا حالانکہ میں نے شاٹ کی ریہرسل کرنے میں کافی توانائی لگائی ہوتی تھی۔ یہ ایک ’میتھڈ ایکٹر‘ اور ’فی البدیہ‘ اداکار کے درمیان فرق ہے۔‘
راہل لکھتے ہیں کہ راج کپور کو اپنی اہمیت اور طاقت کا اندازہ تھا۔ وہ جونی واکر بلیک لیبل کی شراب انگلینڈ سے لاتے اور اپنے کمرے کی خاص الماری میں رکھتے جس کی چابیاں صرف ان کے پاس ہوتی تھیں، وہ مجھ سے کہتے ’بابو ہندوستان میں کوئی ایسی شراب نہیں پیتا جو میں پیتا ہوں۔‘ کھانے کے شوقین راج کپور
راہل راویل اپنی کتاب میں راج کپور کے کھانے کے شوق کے بارے میں لکھتے ہیں: ’ان کے کھانے کا ایک معمول تھا جس کی وہ ہمیشہ پیروی کرتے تھے۔ وہ شام 6 بجے سٹوڈیو سے روانہ ہوتے۔ تیز تیز چلتے ہوئے چیمبر سٹیشن کی طرف جاتے۔ باہر ایک پانی پوری والا ہوتا تھا جہاں سے وہ پانی پوری کھانے کے بعد اس کے ساتھ ہی ایک ساؤتھ انڈین ریستوران جاتے جہاں وہ ڈوسا اور میدھو وڈا کھاتے تھے۔‘
اس ریستوراں میں میدھو یا صابودانہ سے بنا وڈا صرف صبح تیار کیا جاتا تھا لیکن چونکہ راج کپور ہر روز آتے تھے، اس لیے وہ اسے خاص طور پر شام کو بھی ان کے لیے بناتے۔ پھر وہ فلٹر کافی پینے کے لیے ایک قریبی تیسرے ریستوران میں چلے جاتے تھے۔
اس معمول کو توڑنے یا تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ درحقیقت، اگر لوگوں کو ان سے ملنا ہوتا تب بھی وہ شام کے اپنے اس معمول کو ترک نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنے ساتھ شامل ہونے کو کہتے۔ تصور کریں کہ آپ راج کپور سے ملنے آئے ہیں اور آپ سڑک پر کھڑے ان سے بات کرتے ہوئے ’پانی پوری‘ کھا رہے ہیں۔
آر کے سٹوڈیو میں کھانا ہوتا تھا اسے بادشاہوں کا کھانا کہا جا سکتا ہے۔ راہل اس بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں: ’پہلے ایک چکن ڈش، ایک مٹن، ایک مچھلی اور اس سے اوپر ہمارے پاس ایک کیکڑا یا جھینگا اور چکن میں کچھ اور ہوتا تھا، جیسے کلیجی یا کباب۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کی دالیں، سبزیاں اور تین میٹھی چیزیں ہوتی تھیں۔ ہم سب ساتھ بیٹھتے اور اکٹھے کھانا کھاتے۔‘
اس کے اور بھی شواہد ہیں آپ کھانے کے بارے میں اگر کرینہ کپور کی باتیں سنیں تو اپنے کھانے کے شوق کی یہ دلیل دیتی ہیں کہ ’ہم کپور خاندان کے ہیں۔ ہم کھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘
کھانے سے ان کے لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے راہل لکھتے ہیں کہ فائنل ایڈیٹنگ کے دوران ایک اور دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے، ہم سب پروجیکشن روم میں ایک کاغذ اور پیڈ کے ساتھ جمع ہو جاتے تاکہ دن کے کھانے کا مینیو طے کیا جا سکے۔
وہ ’ناولٹی سنیما‘ کے ساتھ گرانٹ روڈ پر واقع کورونیشن نامی ریستوران سے بریانی منگوانا پسند کرتے تھے، اور پھر یہ فہرست دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ کاروں کا انتظام تھا جو کھانا لینے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر جاتی تھیں تاکہ ہم سب کو وقت پر ’گرم کھانا‘ میسر ہو۔
راج صاحب کے لیے شام کو چائے کے ساتھ جو ناشتے بنائے جاتے تھے وہ اس کے بڑے شیدائی تھے۔ یہ ایک رسم تھی جو آر کے سٹوڈیو میں شروع ہوئی تھی اور پھر پوری انڈسٹری میں پھیل گئی۔