راجیش کھنہ: بالی وڈ کے وہ سُپرسٹار جنہیں لڑکیاں اپنے خُون سے خط لکھتی تھیں
راجیش کھنہ: بالی وڈ کے وہ سُپرسٹار جنہیں لڑکیاں اپنے خُون سے خط لکھتی تھیں
جمعہ 29 دسمبر 2023 5:28
راحِل مرزا -نئی دہلی
راجیش کھنہ کی فلمی زندگی کا آغاز فلم ’آخری خط‘ سے ہوا اور پھر انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا (فائل فوٹو: اے این آئی)
مستانی چال، جادوئی آنکھیں، دلکش آواز اور سر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنے والے بالی وڈ کے ’بابو موشائے‘ کی ایک دنیا دیوانی تھی۔
ان کی زبان سے ادا کیے گئے مکالمے ’زندگی بڑی ہونی چاہیے لمبی نہیں‘ یا پھر ’آئی ہیٹ ٹیئرز‘ ایک عرصے تک نوجوانوں کی زبانوں پر رہے جو اس وجیہہ اداکار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے۔
راجیش کھنہ بالی وڈ کے وہ واحد اداکار ہیں جنہوں نے ہندی سنیما میں مسلسل 15 ہٹ فلمیں دے کر ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو اب تک نہیں ٹُوٹ سکا۔
آزادی سے قبل متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں 29 دسمبر 1942 کو پیدا ہونے والے جتن کھنہ (فلمی نام راجیش کھنہ) کے لیے بالی وڈ میں اپنی جگہ بنانا آسان نہیں تھا کیونکہ اس وقت تک ہندی سنیما دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند کی اداکاری کے سحر سے نہیں نکلا تھا۔
ایسے میں راجیش کھنہ کی فلمی زندگی کا آغاز 1966 میں آنے والی فلم ’آخری خط‘ سے ہوا اور پھر انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔
یہاں تک کہ 1972 تک انہوں نے ’آرادھنا‘، ’ڈولی‘، ‘دو راستے‘، ’آن مِلو سجنا‘، اور ’ہاتھی میرے ساتھی‘ جیسی ہِٹ فلمیں دے کر جہاں ایک طرف اپنی اداکاری کا لوہا منوایا وہیں وہ ہندی سنیما کے پہلے سُپرسٹار کہلائے۔
فلم ’آرادھنا‘ کی کامیابی کے بعد ہدایت کار شکتی سامنت کو یوں لگا جیسے انہیں کوہِ نور ہیرا مل گیا ہو جو ان کی فلموں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ’کٹی پتنگ‘، ’امر پریم‘، ’انوراگ‘، ’اجنبی‘، ’انورودھ‘ اور ’آواز‘ جیسی فلموں میں ان کے ساتھ کام کیا۔
کوئی بھی اداکار اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود تنقید اور نکتہ چینی سے بچ نہیں سکتا اور راجیش کھنہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔
ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی کہ وہ صرف رُومانوی کردار ہی ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں راجیش کھنہ نے ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی فلم ’باورچی‘ اور اے بھیم سنگھ کی ’جورُو کا غلام‘ جیسی مزاحیہ فلم دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ رومانی کرداروں کے علاوہ بھی اداکاری کرسکتے ہیں۔
فلمی نقاد یاسر عثمان کی کتاب ’راجیش کھنہ دی اَن ٹولڈ سٹوری آف انڈیاز فرسٹ سپرسٹار‘ کے پیش لفظ میں سلیم خان 1970 کی دہائی میں راجیش کھنہ کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’اس وقت فلم انڈسٹری پر دلیپ کمار، راج کپور، شمی کپور اور دیو آنند جیسے اداکاروں کا راج تھا۔ ان کے آس پاس کسی بھی نئے اداکار کے لیے جگہ تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ راجیش نے صرف اپنا نام ہی نہیں بنایا بلکہ بہت کم وقت میں اپنے سٹارڈم کو ایک نئی بلندی پر پہنچا دیا۔‘
انہوں نے لکھا کہ سنہ 1975-1969 کے درمیان ان کے سپر سٹارڈم کو قریب سے دیکھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ وہ سٹارڈم کی جس بلندی پر پہنچے وہ ہندی سنیما کی دنیا میں کسی اور سٹار نے کبھی حاصل نہیں کی۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ’آج میرا بیٹا سلمان خان بڑا سٹار ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے روزانہ ہمارے گھر کے سامنے ہجوم جمع ہوتا ہے۔ لوگ اکثر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے کسی سٹار کا ایسا کریز نہیں دیکھا۔‘
’میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر کارٹر روڈ پر ’آشیرواد‘ (یہ راجیش کھنہ کی رہائش کا نام ہے) کے سامنے میں نے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں۔ اور میں نے راجیش کھنہ کے بعد کسی دوسرے ستارے کے لیے اس طرح کی پذیرائی نہیں دیکھی۔‘
سلیم خان کہتے ہیں کہ ’راجیش کھنہ کے چاہنے والوں میں چھ سال کے بچے بھی شامل تھے اور 60 سال کے بزرگ بھی۔ لڑکیاں ان کے بارے میں پُرجوش تھیں۔
’ان کے کیریئر کی سب سے ہٹ فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘ کے مصنفین میں میَں بھی شامل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس فلم کی شوٹنگ کے لیے ان کے ساتھ مدراس اور تمل ناڈو کے بہت سے مقامات پر گیا تھا، جہاں راجیش کھنہ کے آنے کا سن کر بہت بڑا ہجوم جمع ہو جاتا تھا۔‘
سلیم خان کے مطابق ’یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ وہاں ہندی فلمیں اتنی مقبول نہیں تھیں۔ تمل فلم انڈسٹری خود مضبوط اور کامیاب رہی ہے اور اس کے اپنے بڑے سٹارز رہے ہیں لیکن راجیش کھنہ کا کرشمہ ہی کچھ ایسا تھا جس نے زبان اور علاقے کی حدوں کو عبور کر لیا تھا۔‘
راجیش کھنہ جب اپنے سٹارڈم کے عروج پر تھے کہ اسی زمانے میں ایک نوعمر اداکارہ ڈمپل کپاڈیا نے فلم ’بابی‘ سے دُھوم مچا دی تھی۔
راجیش کھنہ نے اپنی سے آدھی عمر کی اس نوخیز اداکارہ کو پروپوز کیا جسے وہ رد نہ کرسکیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ نوجوان لڑکیاں انہیں اپنے خون سے خط لکھا کرتی تھیں۔
راجیش کھنہ کی موت پر معروف گلوکارہ آشا بھوسلے نے کہا تھا کہ ’راجش کھنہ اپنے دور کے بہت مقبول اداکار تھے۔ دل کے بہت سادہ تھے۔ لڑکیاں ان پر جان دیتی تھیں لیکن اس کے باوجود ان کے قدم زمین پر رہتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ لڑکیاں انہیں خون سے خط لکھا کرتی تھیں۔‘
راجیش کھنہ نے 1976 تک جن فلموں میں کام کیا وہ ہٹ رہیں۔ راجیش کھنہ کا وہ سنہری دور تھا لیکن بالی وڈ کے ’بِگ بی‘ یعنی امیتابھ بچن کی آمد نے بالی وڈ میں رومانس کا جادُو بکھیرنے والے اداکار کی سلطنت کو تہ و بالا کر دیا اور ’اینگری ینگ مین‘ کی کامیابیوں کا بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس زمانے میں ناظرین نے ان کی فلموں سے منہ موڑ لیا اور ان کی فلمیں ناکام ہونے لگیں۔ ان کی اداکاری میں پائی جانے والی یکسانیت سے بچنے کے لیے انہوں نے فلم ’ریڈ روز‘ میں ایک منفی کردار ادا کرکے مداحوں کو ایک بار پھر مسحور کیا۔
ہندی سنیما میں 50 کی دہائی سے ہی ہمیں مخصوص جوڑیاں نظر آتی ہیں، اب وہ چاہے راج کپور کے ساتھ نرگس کی جوڑی ہو یا پھر دلیپ کمار اور مدھو بالا کی جوڑی ہو۔ اسی طرح راجیش کھنہ کے ساتھ ممتاز اور شرمیلا ٹیگور کی جوڑی کو بھی خُوب پسند کیا گیا۔
انہوں نے ممتاز کے ساتھ فلم ’دو راستے‘، ’آپ کی قسم‘، ’روٹی‘، ’دشمن‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپرہٹ فلمیں دیں۔ فلم ’آنند‘، ’دو راستے‘ اور ’خاموشی‘ جیسی فلموں سے انہوں نے کردار کی گہرائی میں اُترنے کے فن سے بھی متعارف کروایا۔
فلم آنند میں راجیش کھنہ کا بولا گیا ڈائیلاگ ’بابو موشائے….. ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کی انگلی سے بندھی ہوئی ہیں، کب کس کی ڈور کھِنچ جائے یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔‘
یہ مکالمہ اُن دنوں فلم بینوں میں کافی مقبول ہوا تھا اور آج بھی ناظرین اِسے بھلا نہیں پائے۔ ویسے یہ خیال شیکسپیئر کے معروف ڈرامے ’ایز یُو لائک اِٹ‘ سے ماخوذ ہے۔ آرادھنا کے چار شوز ایک سال تک چلے
سنہ 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آرادھنا‘ 100 روز تک جنوب کی کئی زبانوں میں چار شوز کے ساتھ چلتی رہی لیکن ’آرادھنا‘ میں کردار نبھانے والی شرمیلا ٹیگور کہتی ہیں کہ ان کی یہ فلم 50 ہفتوں تک ناظرین کو لُطف اندوز کرتی رہی۔
انہوں نے اپنی اس فلم کا موجودہ دور کی فلم ’آر آر آر‘ سے موازنہ کیا ہے۔ فلم آرادھنا کے بارے میں ہندی فلم کی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی کے مطابق اس فلم کے ایک گانے ’رُوپ تیرا مستانہ‘ کو ون ٹیک میں شُوٹ کیا گیا تھا جو کہ ایک ریکارڈ تھا کیونکہ عموماً کسی بھی فلم یا گانے کو کئی بار میں شُوٹ کیا جاتا ہے۔
جس طرح راجیش کھنہ نے شہرت کی بلندی پائی اسی طرح جلد ہی ان کا گراف اچانک نیچے آگرا۔ ان کے ساتھ کام کر چکے اور فلم ’شعلے‘ میں جیلر کا کردار نبھانے والے مشہور اداکار گووردھن اسرانی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ’راجیش کھنہ اس وقت احساسِ برتری میں مبتلا ہو گئے تھے اور اپنے زوال کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ راجیش کھنہ کسی کے بھی زیادہ قریب نہیں تھے اور وہ صرف اُن سے بات کرنا پسند کرتے تھے جو اُن کی تعریف کرتے ہوں۔‘
اسرانی نے کہا کہ ’فلم ’نمک حرام‘ میں راجیش کھنہ کے مقابل مستقبل کے سپرسٹار امیتابھ بچن تھے لیکن راجیش اپنے اندر ایک احساسِ برتری لیے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اُن کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا اور وہ بہت طاقتور ہیں، اسی وجہ سے اس فلم کے دوران دونوں میں کشیدگی رہی۔‘
راجیش کھنہ کے کئی مشہور نغمے آج بھی کسی محلے میں شادی یا دوسری تقریبات میں سننے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے بیشتر بیک گراؤنڈ گیت کشور کمار کی آواز میں ہیں جو کہ اپنے آپ میں محمد رفیع اور طلعت محمود کی مخملی آواز کی روایت سے انحراف ہے۔ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور کانگریس پارٹی کی جانب سے رکن پارلیمان بھی رہے۔
’ریشمی زلفوں‘ اور ’شربتی آنکھوں والی سپنوں کی رانی‘ سے ’دل کے چین‘ آنے کی دعا کرواتے کرواتے بالی وڈ کے پہلے سُپرسٹار نے ’اچھا تو ہم چلتے ہیں‘ کہہ کر 18 جولائی 2012 کو دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔