Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکیورٹی اور واجب الادا قرضے: شہباز شریف کا دورۂ چین کتنا کامیاب ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف آج سے چین کا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں جو آٹھ جون تک جاری رہے گا۔
چینی صدر شی جن پنگ کی دعوت پر ہونے والے اس دورے کے دوران شہباز شریف چین کی تیل، گیس، توانائی، آئی سی ٹی اور ٹیکنالوجی کمپینوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کریں گے اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے اگلے فیز کے لیے اہم فیصلے اور معاہدے کریں گے۔
دورے کا اہم ستون شہباز شریف کی چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی چیانگ سے خصوصی ملاقاتیں ہیں جس میں وہ خطے اور دنیا کے سٹریٹیجک امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
پاکستانی حکام کے مطابق اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے کاروباری افراد کی باہمی ملاقاتوں کے علاوہ چینی صنعتکاروں کو پاکستان میں اپنی صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے گی۔
چین نے پاکستان میں توانائی اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس کے سرکاری ذرائع کے مطابق چین سال 2022 کے آخر تک سی پیک کی مد میں پاکستان میں 25 اعشاریہ چار ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
 تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستان میں چین کے متعدد منصوبے سست روی کا شکار ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے مختلف واقعات میں چینی شہریوں کے نشانہ بننے اور ہلاک ہونے کے بعد دونوں ممالک کے مابین سکیورٹی کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔
خاص کر رواں سال مارچ میں پاکستان کے شمالی علاقے بشام میں ایک ڈیم پر کام کرنے والے چھ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے بعد بیجنگ نے چینی شہریوں، کمپنیوں اور اہلکاروں کے تحفظ کے لیے پاکستان پر از سر نو دباؤ ڈالا تھا۔
اس حملے میں مبینہ طور پر ملوث 11 شدت پسندوں کی گرفتاری کے چند روز بعد ہی شہباز شریف اپنے موجودہ دور حکومت میں چین کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کا ایک وفد بھی وزیراعظم کے ہمراہ چین کے شہر شینزین جائے گا۔
بتایا جا رہا ہے کہ دورے کے دوران پاکستان میں ریلوے کی بہتری کے لیے تیار کیے جانے والے منصوبے (مین لائن) ایم ایل ون پر پیشرفت ہو گی۔

عابد سلہری کے خیال میں یہ دورہ محض معاہدوں پر دستخط کرنے کی تقاریب اور تصاویر بنوانے کا ایک بہترین موقع ضرور ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے مطابق پاکستان نے اس منصوبے کے لیے پہلے ہی ایک رقم مختص کر دی ہے اور یہ منصوبہ وزیراعظم کے دورہ چین کی شہہ سرخیوں میں شامل ہو گا۔
احسن اقبال کے مطابق ’دورے کے دوران انڈپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی طرز پر توانائی کے معاہدے کیے جائیں گے جبکہ چینی سرمایہ کارووں کے ساتھ زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری اور قراقرم ہائی وے کی ری الائنمنٹ کے معاہدے بھی متوقع ہیں۔‘
دورہ فوٹو آپس کا بہترین موقع ہے
تاہم چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات اور دونوں ممالک کے مابین اقتصادیات اور تجارت پر نظر رکھنے والے آزاد ماہرین اس دورے سے زیادہ امیدیں نہیں رکھتے۔
پائیدار ترقی کے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری کے خیال میں ’یہ دورہ معاہدوں پر دستخط کرنے کی تقاریب اور فوٹو آپس (تصاویر بنوانے کا ایک بہترین موقع) تو ضرور ہے، لیکن ان معاہدوں پر عملدرآمد اور ان سے فوری فوائد حاصل ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘
سب سے اہم معاملے کی تشہیر نہیں ہو گی
ان کے مطابق اس دورے میں جس موضوع پر سب سے زیادہ بات ہو گی وہ شاید خبروں میں نظر نہ آئے کیونکہ چین اس کی تشہیر نہیں چاہے گا۔
یہ موضوع چین کے پاکستان میں لگائے گئے پاور پلانٹس ہیں جن کے بقایا جات کی مد میں پاکستان نے خطیر رقم کی ادائیگی کرنی ہے اور وہ ایسا کر نہیں پا رہا۔

مشاہد حسین کے مطابق پاکستان کو ایم ایل ون پر کام کے آغاز کے لیے آگے بڑھنا چاہیے (فوٹو اے ایف پی)

پاکستان ان قرضوں کو ری شیڈول کروانا چاہے گا اور چین ان کی تشہیر نہیں چاہتا کیونکہ اگر وہ پاکستان کو اس معاملے پر کوئی سہولت دیتا ہے تو یہ چین کے مفاد میں نہیں کہ اس کا علم دوسرے ممالک کو ہو جہاں پر چین کے اس نوعیت کے معاملات ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایک موقع ضرور ہے اگر وہ چین کو پاکستان کی زراعت میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کر لے۔
خاص کر اگر پاکستان چین سے یہاں سویابین پیدا کرنے کا منصوبہ حاصل کر لے تو پاکستان کو 10 ارب ڈالر تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایم ایل ون پر مزید سرمایہ کاری ناممکن لگتی ہے
لیکن معاشی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی خرم حسین کا ماننا ہے کہ ’پاکستان کو اس دورے سے کچھ نہیں ملے گا۔
چین کا ارادہ نہیں لگ رہا کہ پاکستان میں مزید کچھ کرے۔ انہوں نے دنیا کے کئی ممالک میں سرمایہ کاری روک دی ہے اور بظاہر پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔
خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ ایم ایل ون جس پر کام کے آغاز کی باتیں ہو رہی ہیں وہ بھی قابل عمل نہیں لگتا کیونکہ پاکستان اس کی لاگت ادا کرنے کا متحمل نہیں ہے۔‘
چین پاکستان سے اس منصوبے کی لاگت چھ ارب ڈالر ادا کرنے کا کہہ رہا ہے لیکن پاکستان کے پاس اتنی بڑی رقم موجود نہیں ہے، پاکستان یہ رقم کہاں سے لے گا۔ پاکستان پر پہلے ہی قرضوں کے انبار ہیں اس لیے ایم ایل ون پر یہ مزید سرمایہ کاری ممکن نہیں لگتی۔‘
پاکستان ایم ایل ون پر فوری کام شروع کرے
چین کے کئی اداروں اور تھنک ٹینکس کے ساتھ کام کرنے والے پاکستان کے سابق سینیٹر سید مشاہد حسین کے خیال میں پاکستان نے اس معاملے پر پہلے ہی کافی پس و پیش سے کام لیا ہے اور اب اس کو ایم ایل ون پر کام کے آغاز کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں میں چھ حملے ہو چکے ہیں جس میں 17 چینی شہری مارے گئے ہیں (فوٹو: کے پی پولیس)

انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ وہ سال 2015 سے اس منصوبے کی باز گشت سن رہے ہیں لیکن پاکستان میں ریلوے کے کسی وزیر نے اس پر پیشرفت نہیں کی۔
پہلے ہم کہتے رہے کہ اس منصوبے پر کچھ کام چائنہ کرے اور کچھ ایشیائی ترقیاتی بینک۔ انہوں نے کہا نہیں یا تو آپ ہمیں دیں یا ان کو دیں، پھر ہم نے کہا کہ کچھ کام ڈالر میں ہو کچھ چائنیز کرنسی میں ہو، اب ہم مان گئے ہیں اس میں مکس کریں گے تو آپ کام تو شروع کریں۔
چین کے سکیورٹی اور بقایا جات پر تحفظات
مشاہد حسین کے مطابق چین کو پاکستان کے ساتھ سکیورٹی اور واجبات کی ادائیگی کے معاملات پر تحفظات ہیں۔ خاص کر سکیورٹی کے حوالے سے چین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایک مسئلہ بتایا ہے جو کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں چھ حملے ہو چکے ہیں جس میں 17 چینی شہری مارے گئے ہیں ان کی لاشیں ہم نے یہاں سے بیجھی ہیں۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا مسئلہ ہے، اس کا حل بھی ہمارے پاس ہے تو ہم اگر حل نہیں کرتے، تو پھر ہو سکتا ہے کہ وہ تعلقات پر نظر ثانی کریں۔
چین کے اعتماد کو ٹھیس
مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس مسئلے کی وجہ سے چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ’کیونکہ بار بار جب ہمارے کوئی قائدین ملتے ہیں چینی قائدین کے ساتھ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہیں کہ حکومت پاکستان ہمارے باشندوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں آنے دے گا، اور ہر دفعہ ہم ان کو وعدے کرتے ہیں، ہر دفعہ ہم معافی مانگتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ آئندہ یہ نہیں ہو گا اور آئندہ پھر یہ ہوتا ہے۔
سرمایہ کاری ہے خیرات نہیں
مشاہد حسین کے مطابق پاکستان اور چین کے تعلقات میں دوسرا سنگین مسئلہ چین کو واجبات کی عدم ادائیگی کا ہے۔
چینی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے، پچھلے دس سالوں میں کوئی 26 ارب ڈالر لگ چکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ لوگوں کو نوکریاں ملیں، آٹھ ہزار میگا واٹ کی بجلی پیدا ہوئی، 28 ہزار پاکستانی طلبہ چین میں پڑھ رہے ہیں جس میں آٹھ ہزار پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں ان کے واجبات ہیں وہ اگر ہم نے معاہدہ کیا ہے، ضمانت دی ہے، کہ آپ یہ سرمایہ کاری کریں گے تو اس کے عوض جو آپ کا خرچہ ہو گا ہم وہ دیں گے تو وہ واجبات ابھی قابل ادائیگی ہیں۔
 ان کے مطابق ’اس مسئلے کا حل بھی ہونا چاہیے کیونکہ جو بھی لوگ آتے ہیں وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ منافعے کی بھی توقع رکھتے ہیں کیونکہ یہ کوئی خیرات نہیں ہو رہی ہوتی۔‘

مشاہد حسین نے کہا کہ ’چین کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں چین کی ضرورت ہے دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

مسائل کے باوجود چین دور نہیں ہو سکتا، پاکستان فائدہ اٹھائے
تاہم مشاہد حسین کے مطابق ان تمام مسائل کے باوجود چین پاکستان سے دور نہیں ہو سکتا اور اگر پاکستان ان کی شکایات دور کردے تو باہمی تعلقات سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
چین کو ہماری ضرورت ہے، ہمیں چین کی ضرورت ہے دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ہماری طرف سے ڈیلیوری، لال فیتے اور سکیورٹی کا مسئلہ ہے اور ہماری نوکر شاہی جو بہت ہی ڈھیلی اور سست ہے اور وہ فائل کو گھماتی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کا کلچر چین کے ساتھ متعارف کروا کے چینی سرمایہ کار کمپنیوں کو سہولت پہنچانی چاہیے۔‘
مشاہد حسین کے مطابق ’ایک بہت بڑا ایریا ہے زراعت کا، ہم نے انڈسٹریل پارکس کا فیصلہ کیا تھا، سپیشل اکنامک زونز کا، ان سپیشل زونز میں ہم حالات بنائیں گے جہاں چینی کمپنیز آکر سرمایہ کاری لگا سکیں، اس میں ہم نے بجلی دینی ہے ان کو گیس دینی ہے سکیورٹی دینی ہے ان کو ٹرانسپورٹیشن دینی ہے۔ تعلیم ہے، توانائی ہے آئی ٹی ہے، اعلٰی پائے کے ہنر کے شعبے ہیں، ان کو بھی آگے لے کر چلنا ہے لیکن میرے خیال میں ہمارا سسٹم پوری طرح تیار نہیں ہے۔
مشاہد حسین نے کہا کہ ’پاکستان کا سسٹم زنگ آلود ہو چکا ہے اور پاکستان کو چین کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس نظام کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔‘

شیئر: