Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمزور مودی کی تیسری مدت کی وزارت عظمیٰ کے لیے چندر بابو نائیڈو کتنے اہم ہیں؟

2019 کے انتخابات میں نائیڈو نے مودی کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
اپوزیشن کانگریس کے ایک سابق رکن اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ایک متزلزل اتحادی ان کی اگلی حکومت بننے یا نہ بننے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چندر بابو نائیڈو، جن کی پارٹی مودی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) میں دوسری سب سے زیادہ پارلیمانی نشستیں رکھتی ہے، نے وزیر اعظم کے لیے مودی کی تائید کی ہے۔
2019 کے انتخابات میں نائیڈو نے مودی کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کیا تھا۔
دوسری طرف اس بار توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ’ہماری جیت اتحاد کی محنت کا نتیجہ ہے۔‘
چندر بابو نائیڈو جنوبی شہر حیدرآباد کو ٹیکنالوجی کے مرکز میں تبدیل کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ انہوں نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’میں نے ملک میں بہت سی سیاسی تبدیلیاں دیکھی ہیں، لیکن اب ہم این ڈی اے کے ساتھ ہیں۔‘
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارلیمنٹ میں براہ راست منتخب ہونے والی 543 نشستوں میں سے 240 کے ساتھ واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، لیکن یہ نمبر 272 کی اکثریت سے بہت کم ہے۔
ریاست آندھرا پردیش میں نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) 16 سیٹوں کے ساتھ این ڈی اے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
74 سالہ نائیڈو بدعنوانی کے الزامات میں گذشتہ سال جیل جانے کے بعد ضمانت پر ہیں، تاہم انہوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں لیکن اب اس بات کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے کہ نائیڈو نے ریاستی حکومت چلانے کے لیے بلدیاتی الیکشن جیت لیا ہے۔
روئٹرز کے ذرائع نے بتایا کہ چندر بابو نائیڈو اپنی ریاست پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنی پارٹی کے لیے اگلی مودی حکومت میں سینیئر وزارتی عہدوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ماہر اقتصادیات اور سیاسی تجزیہ کار پینٹاپتی پلراؤ نے کہا کہ ’نائیڈو ایک بہت ہی چالاک سیاست دان ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ احتیاط سے آگے بڑھیں گے۔‘

نائیڈو پہلی بار 1978 میں کانگریس کے ٹکٹ پر ریاست کے رکن اسمبلی بنے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

چندر بابو نائیڈو اکثر مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہیں جب وہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر تھے۔ ریاست کا سابق دارالحکومت اب مائیکروسافٹ سمیت بہت سے سافٹ ویئر کمپنیوں کے دفاتر کا گھر ہے۔
2014 میں ریاست کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد ان کی توجہ آندھرا پردیش کے نئے دارالحکومت امراوتی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر بھی مرکوز رہی۔
نائیڈو پہلی بار 1978 میں کانگریس کے ٹکٹ پر ریاست کے رکن اسمبلی بنے تھے، انہوں نے 1990 کی دہائی میں ٹی ڈی پی کی باگ ڈور سنبھالی، جبکہ انہوں نے پارٹی کی بنیاد رکھنے والے اپنے سسر کو پارٹی سے بے دخل کیا۔
افرادی قوت میں داخل ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں نریندر مودی کی نااہلی ان کے عہدہ صدارت کی سب سے بڑی تنقیدوں میں سے ایک رہی ہے۔
نائیڈو کو بی جے پی کے برعکس انڈیا کے اقلیتی مسلمانوں کے بارے میں اعتدال پسند خیالات رکھنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
کارنیل یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر اور انڈین حکومت کے سابق معاشی مشیر کوشک باسو نے نائیڈو کے ساتھ بہت پہلے کی اپنی ملاقات کو یاد کیا۔
باسو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’میں دو خوبیوں سے متاثر ہوا: ان کی کارکردگی اور اس کا سیکولرازم۔ مجھے امید ہے کہ وہ ان خصوصیات کو برقرار رکھیں گے اور اب این ڈی اے سے باہر نکل جائیں گے۔‘

شیئر: