Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایئر کولر، میز اور سائیکل: عمران خان کو جیل میں سہولیات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

اٹارنی جنرل نے عمران خان کو جیل میں فراہم سہولیات پر رپورٹ جمع کرائی ہے۔ فوٹو: رپورٹ
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے جیل سیل کی تفصیلات اور تصاویر سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے انھیں قید تنہائی میں رکھنے کی تردید کر دی ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے جمعرات کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی 22 صفحات کی رپورٹ میں وفاقی حکومت نے عمران خان کی جانب سے ان کے وکلا اور اہل خانہ کو رسائی نہ دینے کی بھی تردید کی اور عدالت کو جیل میں ان سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست بھی فراہم کی ہے۔
اس رپورٹ میں حکومت کی جانب سے عمران خان کو فراہم کردہ سہولیات میں ایئر کولر، مطالعہ کے لیے میز، ورزش کے لیے سائیکل اور ان کی مرضی کی کھانے پینے کی اشیاء شامل ہیں۔
حکومت نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا قید تنہائی میں ہونے کا مؤقف غلط ہے۔
وفاقی حکومت نے  گزارش کی ہے کہ عدالت مناسب سمجھے تو ان کے بیان کی حقیقت کو جانچنے کے لیے کمیشن بھی مقرر کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان کو دن میں دو مرتبہ کوریڈور میں واک کی بھی اجازت ہے۔
خیال رہے نیب آرڈینینس میں ترامیم کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران عمران خان نے عدالت میں کہا تھا کہ انھیں حکومت کی جانب سے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے جبکہ ان کے وکلاء کو بھی ان تک رسائی نہیں دی جا رہی۔
عمران خان کے اس بیان پر سپریم کورٹ نے خواجہ حارث اور دیگر وکلاء کی سابق وزیراعظم سے ملاقات یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ 

رپورٹ کے مطابق عمران خان کو ورزش کی سائیکل اور کھانے کی اشیا میسر ہیں۔ فوٹو: رپورٹ

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت
دوسری جانب سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر عمران خان کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سابق وزیراعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں، کیا آپ فیصلہ سپورٹ کر رہے ہیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا ’میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔ میں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے۔ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔‘
فاروق ایچ نائیک کے بعد وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے اور دلائل کا آغاز کر دیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں۔

عمران خان کو جیل کے کوریڈور میں دن میں دو مرتبہ واک کرنے کی اجازت ہے۔ فوٹو: رپورٹ

خواجہ حارث نے بتایا کہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے۔
انہوں نے جواب میں کہا کہ ’ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بظاہر پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اور جن اداروں، شخصیات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوتا اس سے متعلق ترمیم نہیں کی گئی، پارلیمنٹ موجود تھی قانون سازی کر سکتی تھی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 1999 سے 2018 تک تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں رہیں۔ کسی سیاسی جماعت نے نیب قوانین میں ایسی ترمیم نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر جماعتیں فریق نہیں، ترامیم پی ٹی آئی نے چیلنج کیں ان سے پوچھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیلنج کی گئیں نیب ترامیم مخصوص تناظر میں کی گئیں۔ کرپشن عوام کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے، عوام کا پیسہ لوٹا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ نیب قوانین کا اطلاق پبلک آفس ہولڈر پر ہوتا ہے، پبلک آفس ہولڈرز صرف سیاستدان نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے؟ میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کر سکتا ہے، یہ اختیار نیب کا ہے پتہ کرے کرپشن ہوئی یا نہیں؟

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا۔ ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں، میں بنچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 روز کے نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟، نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

شیئر: