نان فائلرز پر پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ، پاکستان میں گھر بنانا اب کتنا مشکل؟
نان فائلرز پر پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ، پاکستان میں گھر بنانا اب کتنا مشکل؟
اتوار 16 جون 2024 15:42
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ب 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ پر بھی سالانہ سات فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان میں مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت کے پہلے معاشی بجٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بجٹ میں کئی نئے ٹیکس نہ صرف عائد کیے گئے ہیں بلکہ کئی شعبوں میں پہلے سے موجود ٹیکسوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
خاص طور پر ایسے افراد جو ٹیکس فائلر نہیں ہیں، حکومت نے ایک طرح سے ان کے گرد معاشی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
صرف ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں نان ٹیکس فائلرز پر 45 فیصد ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد اس مارکیٹ میں ایک بھونچال کی کیفیت ہے جبکہ کاروباری برادری اس اقدام کو رئیل اسٹیٹ کی صنعت کو بٹھانے کے مترادف قرار دے رہی ہے۔
وفاقی بجٹ کے بعد ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے صوبائی بجٹ میں علیحدہ سے ریئل اسٹیٹ پر کئی ٹیکس لگائے ہیں۔ اب 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ پر بھی سالانہ سات فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک کروڑ سے دو کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ پر آٹھ فیصد سالانہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
اب گھر بنانا کتنا مشکل ہو گا؟
مسز سعدیہ افضل کا تعلق لاہور سے ہے۔ ان کے خاوند کا انتقال چند برس پہلے ہوا اور وہ اپنے خاوند کے بعد اپنا ذاتی گھر بنانے کی جستجو میں ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے خاوند کے ساتھ مل کر پانچ سال پہلے ایک پلاٹ قسطوں پر خریدا تھا۔ لیکن جس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہم نے انویسٹ کیا تھا، اس میں ایک ڈیڑھ برس سے کام بالکل رکا ہوا ہے۔ اس کی ڈویلپمنٹ نہیں ہو رہی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اس پلاٹ کو نکال دوں اور کہیں اور لے لوں جہاں پر کام ہو رہا ہے۔ میں ایک ہی وقت میں قسطیں اور جس میں مکان میں رہ رہی ہوں، اس کا کرایہ دے رہی ہوں جو کہ بہت مشکل کام ہے۔ میرے دو بچے ہیں جو ابھی پڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اب جس طرح سے پراپرٹی کی خریدوفروخت اور فائلر نان فائلر پر ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ میں پہلے سے موجود اپنے پلاٹ کو بھی بیچ پاؤں گی۔ کیونکہ مجھے وہ پہلے ہی بتاتے ہیں کہ مارکیٹ میں مندا چل رہا رہے، کچھ عرصہ ٹھہر جائیں۔ اور اب پتا نہیں اور کتنا مندا ہو گا۔‘
لاہور ہی کے ایک اور شہری محمد اسد نے بھی گھر بنانے کے لیے ایک پلاٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے شہر کے مضافات میں ایک چھوٹا سا پلاٹ لے رکھا تھا جس کی قسطیں میں آسانی سے دے رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جلد اس پلاٹ کی قسطیں اتار کر اسے بیچوں گا اور قدرے بہتر اور شہر کے نزدیک کسی جگہ پر گھر بنانے کے لیے تھوڑا بڑا پلاٹ لوں گا۔ لیکن اب تو مجھے لگ رہا ہے کہ جس طرح میں سوچ رہا تھا، صورت حال اس سے مختلف ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ نئے ٹیکس عائد ہونے کے بعد صورت حال کیا ہو گی کیونکہ ٹیکس لگنے سے پہلے بھی مجھے روشنی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کیونکہ مارکیٹ میں خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ راحیل منہاس کہتے ہیں کہ ’حکومت نے تو ایسے ٹیکس عائد کیا ہے جیسے یہ مارکیٹ عروج پر ہو۔ پچھلے دو برس سے پاکستان کی اس صنعت میں چل کیا رہا ہے، یہ کسی بھی رئیل اسٹیٹ سے وابستہ شخص سے پوچھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی۔ دو سال سے انویسٹر رکا ہوا ہے اور مارکیٹ جامد ہے۔ جن پروجیکٹس کے اعلان ہو چکے تھے، ان کے ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں۔‘ ’سرمایہ کاروں نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ جب خریدوفروخت نہیں ہو رہی تو مارکیٹ پر مزید ٹیکس لگانے سے صورت حال بہتر تو نہیں ہو سکتی۔ جو پہلے سرمایہ کاری کر چکے ہیں ان کو اپنا پیسہ فوری طور پر واپس آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت نے پراپرٹی کا کاروبار مشکل بنا دیا ہے اور اینڈ یوزر اس سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟ گھر بنانا پہلے مشکل تھا اور مشکل تر ہو گیا ہے۔‘ تاجر تنظیمیں بھی سراپا احتجاج
عوام اور رئیل اسٹیٹ کاروبار سے وابستہ افراد کو تو اس بجٹ کے بعد پریشانی لاحق ہوئی ہے، ساتھ ساتھ تاجر تنظیمیں جو بجٹ تیاری میں حکومت کو تجاویز بھی فراہم کرتی ہیں۔ وہ بھی اس صورت حال سے خوش نہیں ہیں۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر کاشف انور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’رئیل اسٹیٹ پر 45 فیصد ٹیکس سے یہ صنعت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی۔ آپ دیکھیں کہ ملک میں ٹوٹل انفرادی ٹیکس فائلرز کی تعداد ساڑھے 30 لاکھ ہے۔ ٹیکسز کی شرح بڑھانا معیشت کے لیے اور مشکلات کا باعث بنے لوگ زیادہ ٹیکس چوری کی طرف جائیں گے۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو روکنے کی کوشش کی ہے ۔ اور اگر یہ صنعت رکے تو معیشت کو مکمل طور پر بیک گئیر لگ جائے گا۔‘
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے ریجنل چئیرمین ذکی اعجاز کہتے ہیں کہ ’آپ اس کو اس طرح دیکھیں کہ حکومت نے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بندوق کی بجائے توپ سے فائر کر دیا ہے۔ اگر رئیل اسٹیٹ کی صنعت بیٹھے گی تو اس کے ساتھ منسلک 46 اور صنعتیں بھی جائیں گی۔ سیمنٹ، سریے سے لے کر ہر وہ کاروبار جو ایک گھر بنانے میں استعمال ہونے والا میٹیرل سپلائی کرتا ہے۔ اس لیے یہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ ہمیں گراؤنڈ پر یہ معاملہ ایسے چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
پنجاب حکومت سے لاگو کیے گئے اضافی ٹیکس پر بات کرتے ہوئے صوبے کی وزیر اطلاعات عظمہ بخاری کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کا بجٹ ایک عوام دوست بجٹ ہے جس میں ٹیکس کی کچھ کیٹیگریز تبدیل ہوئی ہیں۔ بلکہ حکومت نے اپنا گھر سکیم کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ جو لوگوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی صورت میں ملیں گے جس سے وہ اپنا گھر بنا سکیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بجٹ پر بہت زیادہ پینیک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ حلقے بلاوجہ ڈرامائی صورت حال پیدا کر رہے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت معیشت کو واپس اپنی پٹڑی پر لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔ یہ ایک دو سال ہی تھوڑے مشکل ہیں۔ پھر ان فیصلوں کے ثمرات براہ راست عوام کو پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔‘