Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈومیسٹک سٹرکچر نہ ڈیپارٹمنٹل ہاکی، کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ کیسے بنتے ہیں؟

صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں سے ہی کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں ہاکی کا ڈومیسٹک سٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہاکی کھیلنا ناپید ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر نوجوان کھلاڑی قومی ہاکی ٹیم میں کیسے جگہ بناتے ہیں؟
اس سوال پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر طارق بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک کے مخصوص شہروں میں قائم ہاکی کے چھوٹے کلبز قومی ٹیم تک کھلاڑیوں کی رسائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
طارق بگٹی کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں صرف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں سے ہی نوجوان کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا سے دو پلیئرز قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہیں جبکہ زیادہ تر کھلاڑیوں کا تعلق پنجاب کے شہروں فیصل آباد اور گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔
’ملک میں اِس وقت ہاکی کا کوئی بنیادی سٹرکچرموجود نہیں۔ جب میں نے ہاکی فیڈریشن میں بطور صدر ذمہ داریاں سنبھالیں تو معلوم ہوا کہ سکولوں،کالجوں اور مخلتف یونیورسٹیوں میں بھی ہاکی کھیلنا بند ہو چکا ہے۔
’صوبہ سندھ اور بلوچستان سے نوجوان قومی ٹیم میں شامل نہیں‘
صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن طارق بگٹی کا کہنا ہے کہ ملک کے صرف مخصوص علاقوں میں ہاکی کی سرگرمیاں ہونے کی وجہ سے مخصوص صوبوں سے کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں۔
طارق بگٹی کے مطابق اس وقت قومی ہاکی ٹیم میں صوبہ بلوچستان اور سندھ سے کوئی کھلاڑی نہیں ہے تاہم ان کی کوشش ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور کشمیر سے بھی کھلاڑی قومی ٹیم میں آئیں۔

ہاکی کے چھوٹے کلبز قومی ٹیم تک کھلاڑیوں کی رسائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبہ پنجاب سے کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت پر طارق بگٹی نے بتایا کہ دو شہروں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہاکی کے پلیئرز نکل رہے ہیں جو قومی ٹیم کا بھی حصہ بنتے ہیں۔
’گلگت بلتستان یا کشمیر سے کھلاڑی قومی ٹیم میں نہیں ہیں لیکن ان دونوں علاقوں میں ہاکی کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہر علاقے میں بچوں کو ہاکی کھیلنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔‘
اگر ہاکی کا ڈومیسٹک سٹرکچر نہیں ہے تو کھلاڑی کہاں کھیلتے ہیں؟
طارق بگٹی نے بتایا کہ ملک کے مختلف شہروں میں قائم چھوٹے ہاکی کلبز پلیئرز کو مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ کلبز ملک کے مخصوص علاقوں میں موجود ہیں جہاں بچے ہاکی کھیلتے ہیں۔
مختلف سرکاری اداروں میں ہاکی کو فروغ دینے پر بات کرتے ہوئے طارق بگٹی نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن مقامی سطح پر کھیل کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے، فیڈریشن کی کوشش سے ہی وزیراعظم نے ڈیپارٹمنٹل ہاکی بحال کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف سرکاری اداروں کے مابین ہاکی کے میچز ہوں گے جس کا باقاعدہ آغاز ہونا باقی ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک سٹرکچر کو مکمل بجال کریں گے۔
’چونکہ اب صوبائی حکومتوں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں اس لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک میں ہاکی کو فروغ دیا جائے گا۔‘
پاکستان ہاکی کے بڑے نام اولمپیئن سہیل عباس کے خیال میں ملک کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی ہاکی کھیلنے کی سہولیات ہونا قومی ٹیم میں مخصوص علاقوں سے کھلاڑیوں کے آنے کی بنیادی وجہ ہے۔

صوبہ سندھ اور بلوچستان سے نوجوان قومی ٹیم میں شامل نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

سہیل عباس نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ہاکی کا ڈومیسٹک سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہر صوبے سے پلیئرز آنے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔
’ہمارے زمانے میں سکول، کالج، یونیورسٹی اور پھر قومی سطح پر ہاکی کھیلنے کے مواقع ملتے تھے۔ تاہم اب یہ بنیادی سیڑھیاں ہی ختم ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں ڈومیسٹک ہاکی کا سسٹم تو موجود ہے مگر اُس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن کے الیکشن تو ہو جاتے ہیں مگر پھر کسی پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
صوبہ سندھ میں ہاکی کے کم رجحان پر بات کرتے ہوئے سہیل عباس نے کہا کہ صوبے میں ہاکی کھیلنے کے لیے بنائے گئے گراؤنڈز قبضہ مافیا کے استعمال میں آ جاتے ہیں۔
’اندرون سندھ میں ہاکی پر کروڑوں روپے کے منصوبے مکمل کیے گئے مگر آج اُن پر قبضہ مافیا قابض ہے۔ کوئی عام کھلاڑی وہاں جا کر کھیل نہیں سکتا صرف طاقت کے استعمال سے ہی ان گراؤنڈز میں جایا جا سکتا ہے۔‘
’رائٹ مین فار دا رائٹ جاب‘ کی پالیسی
پاکستان ہاکی فیڈریشن میں قابل اور متعلقہ فیلڈ کے افراد کی تعیناتی پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل عباس نے کہا کہ ہماری فیڈریشن میں ایک المیہ رہا ہے کہ ’رائٹ مین فار دا رائٹ جاب‘ کے بجائے ’یس مین فار دا رائٹ جاب‘ کی پالیسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
’اگر ہاکی کو صحیح معنوں میں دوبارہ عروج پر پہنچانا ہے تو جس کی جو جگہ ہے اُس کو وہیں بٹھانا ہو گا۔ اپنے مفاد اور پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔‘

ڈومیسٹک سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہر صوبے سے پلیئرز آنے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان ہاکی کے سابق کھلاڑی اولمپیئن شہناز شیخ کے مطابق سکولوں، کالجوں اور کلبز میں ہاکی کا کم ہوتا رجحان اس کھیل کی تنزلی کی ایک بنیادی وجہ بنا ہے۔
’جب کسی مخصوص علاقے سے کھلاڑی قومی ہاکی ٹیم میں آنا شروع ہو جائیں تو اس سے چند شراکت داروں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جو سب کے فائدے کے بجائے صرف اپنا نفع و نقصان سوچتے ہیں۔‘
شہناز شیخ کے مطابق اُن کے زمانے میں ملک کے چاروں صوبوں میں ڈیپارٹمنٹل ہاکی کھیلی جاتی تھی اسی لیے اُس وقت کسی مخصوص علاقے کے بجائے مختلف علاقوں سے ہاکی کا ٹیلنٹ سامنے آتا تھا۔

شیئر: