لاہور کے پرائیویٹ گرلز ہاسٹلز میں خواتین خود کو غیرمحفوظ کیوں سمجھتی ہیں؟
لاہور کے پرائیویٹ گرلز ہاسٹلز میں خواتین خود کو غیرمحفوظ کیوں سمجھتی ہیں؟
جمعہ 21 جون 2024 5:44
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
اٹیچڈ واش روم کے ساتھ سنگل بیڈ روم کا ماہانہ کرایہ 30 ہزار روپے ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹرپ ایڈوائزر)
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں گذشتہ ہفتے پولیس نے ایک بڑی عمارت کو گھیرے میں لیا۔ یہ لڑکیوں کا ایک پرائیویٹ ہاسٹل تھا۔ پولیس نے اس کی انتظامیہ کے دو افراد کو حراست میں لیتے ہوئے سارا ہاسٹل خالی کروا دیا۔
یہاں پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی 40 سے زائد لڑکیاں رہائش پذیر تھیں جو لاہور میں پڑھائی اور نوکری کی غرض سے آئی تھیں۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک 17 سالہ لڑکی نے یکم جون کو اپنے ہاسٹل کے واش روم میں پہلے سے لگے ایک خفیہ کیمرے کا سراغ لگایا اور اپنے گھر والوں کو اس بات سے آگاہ کیا۔ اس لڑکی کے رشتہ دار فوراً لاہور پہنچے اور پولیس سے رجوع کیا۔
پولیس نے فوری مقدمہ درج کرتے ہوئے اس ہاسٹل کو سیل کر دیا اور پرائیویٹ گرلز ہاسٹل کے مالک اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر افراد پر چائلڈ پورنوگرافی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
لاہور میں ایسے سینکڑوں گرلز ہاسٹلز گھر گھر اور گلی گلی میں کھلے ہوئے ہیں جو صوبہ بھر سے آئی لڑکیوں اور خواتین کو رہائش مہیا کرتے ہیں۔ تاہم ابھی تک ان ہاسٹلز کو ریگولیٹ کرنے کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ اور نہ ہی کسی بھی محکمے کے پاس ان ہاسٹلز کا کوئی ڈیٹا موجود ہے۔
گرلز ہاسٹل کیسے کام کرتے ہیں؟
شاہین مشال پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں اور گذشتہ پانچ برسوں سے لاہور میں ایک گرلز ہاسٹل میں اپنی نوکری کی وجہ سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ فیصل آباد ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے تجربے کے مطابق تو یہ ایک پُرکشش کاروبار ہے جسے زیادہ تر پراپرٹی ڈیلر چلا رہے ہیں۔ یہ مختلف علاقوں میں گھر کرائے پر لیتے ہیں اور بغیر کسی کو بتائے اس کو خواتین کا ہاسٹل بنا دیتے ہیں۔ جو ماہانہ فیس طے کی جاتی ہے اس میں کھانا پینا اور بجلی کا بل شامل ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر لڑکیاں اسے ایک آسان چوائس سمجھتی ہیں۔ میں جس علاقے میں گرلز ہاسٹل میں رہتی ہوں، وہاں اسی گلی میں چار اور ہاسٹل ہیں اور ساتھ والی گلی میں دو ہیں۔‘
ہر جگہ پھیلے ان گرلز ہاسٹلز کے باہر نہ تو کوئی بورڈ لگا ہوتا ہے اور نہ کوئی سکیورٹی گارڈ ہوتا ہے۔ باہر سے یہ ایک عام گھر نظر آتا ہے جس میں درجنوں لڑکیاں رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ اٹیچڈ واش روم کے ساتھ سنگل بیڈ روم کا ماہانہ کرایہ 30 ہزار جبکہ ایک کمرے میں دو بیڈز کا کرایہ تقریباً 22 ہزار ہوتا ہے۔ اسی طرح سے تین بیڈز اور چار بیڈز تک 15 سے 18 ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔
لاہور کے جن علاقوں میں سب سے زیادہ سستے گرلز ہاسٹلز ہیں، ان میں جوہر ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، رائیونڈ، ٹاؤن شپ اور مزنگ شامل ہیں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں جو نوکری اور تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کرتی ہیں، ان کے لیے یہ ’چھپے‘ ہوئے ہاسٹلز ایک عذاب بن جاتے ہیں۔
طیبہ مغل جو گذشتہ کئی سال سے کئی ہوسٹلز میں رہ چکی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان ہاسٹلز کا کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے۔ پانچ سے 10 ہزار روپے سکیورٹی ہوتی ہے جو کبھی واپس نہیں ہوتی، اور صرف آئی ڈی کارڈ کی کاپی سے رہائش مل جاتی ہے۔ کھانا ایسا ہوتا ہے جو کھانے کے قابل نہیں ہوتا، چوری اتنی ہوتی ہے جب شکایت لگاؤ تو وہ سامان باہر رکھ دیتے ہیں۔ صفائی کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ تو سستا ترین کاروبار ہے۔ آپ لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے پر گھر کرائے پر لیں اور اس کو گرلز ہاسٹل بنا کر ماہانہ چار پانچ لاکھ روپے کمائیں۔ معیار سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اس پر بات کریں تو وہ کہتے ہیں فوری نکلو یہاں سے۔ ایک طرح سے یہ بلیک میلنگ ہے۔‘
’جو لڑکی زیادہ بولے اس کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے تمہیں کون لینے آتا ہے اور کیا کرتی ہو۔ تمہارے گھر والوں کو سب بتا دیں گے۔ میرے ساتھ رہنے والی ایک لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا تھا، اور وہ فوری طور پر وہ ہاسٹل چھوڑ گئی تھی۔‘
یہ گرلز ہاسٹل اپنی تشہیر کیسے کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہین مشال کا کہنا تھا کہ ’واٹس ایپ گروپس میں تشہیر کی جاتی ہے، اس کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بسوں میں پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب گوگل زیادہ استعمال ہو رہا ہے کیونکہ جس کو ضرورت ہے اس نے سرچ کرنا ہے۔ آپ ابھی گوگل میں گرلز ہاسٹلز لکھیں تو آپ کے سامنے آپ کے علاقے میں درجنوں گرلز ہاسٹلز نکل آئیں گے جن کا آپ کو بھی نہیں پتہ ہو گا۔‘
تو کیا یہ ایک محفوظ رہائش ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک طالبہ ام ایمن کا کہنا تھا کہ ’نہیں بالکل بھی نہیں، چلیں ہوسٹل مالکان کی حد تک تو یہ ہے کہ ان کو صرف پیسے کا لالچ ہوتا ہے۔ زیادہ پیسے لے کر صفر سروسز دینا ان کا کاروبار ہے۔ لیکن آپ کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ آپ کے ساتھ روم میں دوسری لڑکی کون ہے۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ روم میٹس نے لڑکیوں کی ویڈیوز بنائیں۔ آپ کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے ہیں اور چوریاں الگ سے۔ بس مجبوری ہے کہ اور کوئی آپشن نہیں ہے محفوظ تو بالکل نہیں ہیں۔‘
اردو نیوز نے ایک درجن سے زائد ایسی لڑکیوں سے بات کی جو لاہور میں مختلف ہاسٹلز میں رہتی ہیں لیکن کسی ایک نے بھی اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔
کچھ پرائیویٹ ہاسٹل مالکان سے بھی بات ہوئی تو ان میں سے ایک محسن علی بات کرنے پر راضی ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کئی طرح کے ہاسٹل ہیں، جو مہنگے ہیں وہاں سہولیات زیادہ ہیں، اور جو سستے ہیں وہاں تو یہ شکایات ہوتی ہیں۔ کاروبار تو یہ ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اب تو بہت لوگ اس میں آ گئے ہیں۔ اس وجہ سے بھی اب شکایتیں بھی زیادہ ہیں۔ میں اور میری بیوی 10 سال سے ہاسٹل چلا رہے ہیں اور جو بھی لڑکی یہاں رہتی ہے وہ آگے بھی ریفر کرتی ہے۔‘
گرلز ہاسٹلز پر حکومتی شکنجہ
لاہور میں تیزی سے پھیلتے ہوئے گرلز ہاسٹلز کے اس کاروبار پر حکومت بھی کچھ سال قبل چوکنا ہوئی اور خود سے گرلز ہاسٹلز بنانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ہوسٹلز بنانے والے ادارے ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی سیکریٹری سمیرا صمد نے بتایا ’ہمارا ادارہ بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہم ورکنگ خواتین کو جو دوسرے شہروں سے آتی ہیں اور ان کر رہائش کے مسائل ہیں، ان کو سستی اور معیاری رہائش فراہم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف لاہور کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صوبے کے تمام بڑے شہروں کے لیے یہ منصوبہ کام کر رہا ہے۔ ابھی تک ہم نے 12 شہروں میں 16 ہاسٹلز بنا لیے ہیں جو اس وقت ورکنگ حالت میں ہیں اور خواتین کو سستی رہائش فراہم کر رہے ہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں ’خفیہ طور‘ پر چلنے والے پرائییٹ گرلز ہاسٹلز کا ریکارڈ کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔ اس حوالے سے سمیرا احمد کا کہنا تھا کہ ’ویسے تو ہمارے پاس مینڈیٹ نہیں ہے کہ ریکارڈ مرتب کریں، لیکن جو شہر میں بڑے گرلز ہاسٹلز ہیں ان کی تعداد 125 کے قریب ہے جن کا ریکارڈ سرکار کے پاس ہے۔ جہاں تقریباً نو ہزار لڑکیاں رہ رہی ہیں۔‘
لیکن آپ اگر لاہور کے رہائشی ہیں تو گوگل پر سرچ کرنے پر 100 کے قریب گرلز ہاسٹل آپ کو 20 کلومیٹر کے دائرے میں مل جائیں گے۔
حکومت نے خود سے ہاسٹلز بنانے کے ساتھ ساتھ گذشتہ برس ’پنجاب ویمن ہاسٹلز اتھارٹی ایکٹ‘ کے نام سے ایک باضابطہ قانون بھی اسمبلی سے پاس کروایا ہے۔ تاہم صوبے میں جاری سیاسی رسہ کشی کے باعث اس اتھارٹی کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اتھارٹی کا چئیرپرسن مقرر کیا جائے جو صوبائی کابینہ نے تین سال کے لیے کرنا ہے۔ اس کے بعد اس اتھارٹی کے پاس گرلز ہاسٹلز بنانے کا لائسنس جاری کرنے کا اختیار ہے اور کسی بھی لائسنسڈ ہاسٹل کے اندر جا کر اس کے معیار کی انسپیکشن بھی کی جائے گی۔ تاہم اس قانون کے بننے کے باوجود ڈیڑھ سال سے یہ اتھارٹی فعال نہیں ہو سکی۔
بظاہر اس قانون میں وہ تمام باتیں شامل کی گئی ہیں جن کی شکایت پرائیوٹ گرلز ہاسٹلز کی لڑکیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس قانون کے تحت ہر ہوسٹل میں ایک گریڈنگ سسٹم کے تحت ایک سرٹریفیکیٹ آویزاں ہو گا جو یہ بتائے گا کہ اس ہوسٹل کی سہولیات کے لحاظ سے کیٹیگری کیا ہے۔ جس سے نئے آنے والی خواتین کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ وہ یہاں رہنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
اس اتھارٹی کے حوالے سے ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ بہت جلد اس اتھارٹی کو فعال کیا جا رہا ہے۔
’یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ صوبے کو بریک لگائی گئی اور اس سے نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوا۔ اب عوامی حکومت ہے اور میڈم چیف منسٹر عورتوں کے حقوق کے لیے جیسے کام کر رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ جلد ہی اس اتھارٹی کا قیام عمل میں لا کر اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا‘
دوسری طرف جوہر ٹاؤن کے گرلز ہاسٹل میں مبینہ طور پر واش روم سے کیمرہ برآمد ہونے کے مرکزی ملزمان عبوری ضمانت پر ہیں۔ اور پولیس اس حوالے سے ان سے مزید تفتیش کر رہی ہے۔