Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کی سرائیں، غریبوں کے رات گزارنے کی جگہ یا بچوں سے زیادتی کے مراکز؟

ڈی ایس پی انجم توقیر کے مطابق لاہور کے گنجان علاقوں میں یہ دو دو تین مرلے کی نسبتاً پرانی عمارتیں ہیں جو بہت ہی کم کرائے پر دستیاب ہوتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ پکی تھی اسی لیے سب انسپکٹر خلیل طیب نوید بھیس بدلے کئی گھنٹوں سے اس پرانی بدبودار سرائے میں ایک چارپائی پر سر نیچے کیے بیٹھے تھے لیکن ابھی تک کوئی سرا اُن کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
یہ لاہور کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا جو ایک طرف ریلوے سٹیشن، لاری اڈے اور دوسری طرف لوئر مال تک جاتا ہے۔ یہاں جگہ جگہ پر قائم چھوٹی چھوٹی سرائیں غریب افراد اور مزدوروں کے رات گزارنے کا ذریعہ ہیں۔ انہی میں سے ایک سرائے میں خلیل طیب بیٹھے تھے۔
وہ جس مشن پر تھے اس میں جب کوئی سرا ہاتھ نہ آیا تو پھر لاہور پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کو طلب کر لیا گیا۔ ڈی ایس پی انجم توقیر اپنی ٹیم کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے تھے۔
اس خفیہ آپریشن کے حوالے سے انجم توقیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چند روز قبل ہمیں ٹاسک ملا تھا کہ ایک گینگ اس گنجان علاقے میں 10 سے 15 سال کے لاوارث بچوں کے ریپ میں ملوث ہے۔ تو ہم نے اس گینگ کے افراد کو ڈھونڈنے کا ایک منصوبہ بنایا۔ اس بار ہم نے سب انسپکٹر خلیل اور اے ایس آئی محسن کے ساتھ ایک کانسٹیبل کو تیار کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ شاید سب انسپکٹر بھیس بدل کر بھی ان لوگوں کا اعتماد حاصل نہیں کر پا رہا۔‘
پولیس ٹیم کے تینوں اہلکار بھیس بدلے ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں نکل کھڑے ہوئے لیکن اس بار کانسٹیبل لیڈ کر رہا تھا۔ اور اس بار ایک مختلف سرائے ان کا ٹارگٹ تھی۔

یہ سرائیں ہیں کیا؟

ڈی ایس پی انجم توقیر بتاتے ہیں کہ لاہور کے گنجان علاقوں میں یہ دو دو تین مرلے کی نسبتاً پرانی عمارتیں ہیں جو بہت ہی کم کرائے پر دستیاب ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ان کو کرائے پر لے کر اس کے کمروں میں چارپائیاں لگا دیتے ہیں۔ ایک ایک کمرے میں تین تین لوہے کی چارپائیاں ہوتی ہیں، جیسے ہوسٹل ہوتے ہیں۔ اور یہاں ایک رات گزارنے کے لیے 80 روپے سے 120 روپے تک میں چارپائی مل جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جو محنت مزدوری کرنے کے لیے لاہور آتے ہیں اور ان کے پاس ٹھکانہ نہیں ہوتا تو وہ یہاں سستی ترین رہائش لیتے ہیں۔ جو قدرے بہتر سرائے ہیں وہاں نہانے کا انتظام بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے پیسے الگ سے ہوتے ہیں۔
ڈی ایس پی آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے مطابق ’کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں، خاص طور پر ٹیلی گرام میسنجر میں، جو لوگ وی پی این لگا کر استعمال کرتے ہیں، اور چائلڈ پورنو گرافی تھی۔ اس میں بچوں کی عصمت دری کے مناظر تھے، ویڈیوز کے اندر ماحول ایسی جگہوں سے ملتا جلتا تھا جیسی یہ سرائیں ہیں۔‘

پولیس ٹیم کے تینوں اہلکار بھیس بدلے ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں نکل کھڑے ہوئے لیکن اس بار کانسٹیبل لیڈ کر رہا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پولیس کا خیال تھا کہ لاوارث بچوں کے ساتھ ریپ کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب پر فروخت کی جاتی ہیں اور اس میں کوئی طاقت ور گروپ ملوث ہے، جو غربت اور جرائم کے اس گٹھ جوڑ کو پوری طرح سمجھتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

پولیس نے گینگ کیسے ڈھونڈا؟

کانسٹیبل جس سرائے میں ٹھہرا تھا اور اس نے بھیس بدل کر بولنے کا انداز اپنایا ہوا تھا اس پر جلد ہی بھروسہ کر لیا گیا۔ اور اس سرائے کے مالک نے کچھ گھنٹوں بعد ہی ایک 12 13 سال کے بچے کو سرائے کے اندر بھیج دیا۔
سب انسپکٹر خلیل طیب بتاتے ہیں کہ ’کانسٹیبل نے ہمیں میسج کر دیا کہ وہ کامیاب ہو گیا ہے۔ انہوں نے ہمیں لوکیشن بھی بتا دی۔ اس کے بعد ہم بھی اس سرائے کے باہر پہنچ گئے۔‘
’کانسٹیبل نے اس بچے کا اعتماد حاصل کیا اور اسے بتایا کہ وہ اسی کے علاقے کا ہے۔ اس نے اسے 500 روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ وہ اس سے صرف باتیں کرنا چاہتا ہے۔ اس بچے نے پھر وہ پوری کہانی سنانا شروع کی کہ اسے اس مکروہ دھندے میں کیسے لایا گیا اور یہ کون لوگ ہیں، اور محض 500 سے 1000 روپے اسے دیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار ویڈیو بھی بناتے ہیں۔ اس بچے نے یہ بھی بتایا کہ وہ اکیلا نہیں ہے اور بھی بچے ہیں۔‘
نہایت احتیاط کے ساتھ یہ ساری معلومات آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے ہیڈکوارٹر بھی بھیجی جا رہی تھیں۔

پولیس کا خیال تھا کہ لاوارث بچوں کے ساتھ ریپ کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب پر فروخت کی جاتی ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈی ایس پی انجم توقیر کے مطابق ’اب وقت آ گیا تھا کہ ہم نفری کے ساتھ وہاں پہنچتے، کیونکہ اس بچے سے وہ ساری معلومات ہم کو مل چکی تھیں جو ضروری تھیں۔ اسے ان لوگوں کے نام بھی یاد تھے اور یہ بھی پتہ تھا کہ باقی بچے کہاں ہیں جو اس کام کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد ہم نے اس سرائے کا گھیراؤ کر لیا اور اس کے مالک اور ایک ملازم کو حراست میں لیا۔ اس بچے کی نشاندہی پر ہمیں سات اور بچے ملے جو مختلف سراؤں میں ہی تھے۔ اور اس گینگ کے چار افراد کو ہم نے گرفتار کر لیا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ گینگ اس سے بھی بڑا ہے۔ اس وقت ہماری پوری کوشش ہے کہ اس پورے گینگ کو گرفتار کیا جائے۔ ڈارک ویب کا نیٹ ورک توڑنے تک ہم اس آپریشن کو جاری رکھیں گے۔‘
پولیس نے چاروں ملزمان کے موبائل فونز سے کافی ڈیٹا ریکور کر لیا ہے اور مقدمہ بھی درج کر لیا ہے، جبکہ ریسکیو کیے جانے والے آٹھوں بچوں کو ایدھی ہوم میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے سدباب کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2023 میں روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں 11 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں 4200 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ اور ان میں 47 فیصد لڑکے ہیں۔ جن کی عمریں چھ سے 15 سال کے درمیان ہیں۔ یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو پولیس کو رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

شیئر: