Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا‘

وزیراعظم آفس کے مطابق ’عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکومت پاکستان نے وضاحت جاری کی ہے کہ ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وژن جس کا نام ’عزم استحکام‘ رکھا گیا ہے، کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ ’ضربِ عضب‘ اور ’راہ نجات‘ جیسے مسلح آپریشنز جیسے سے کیا جا رہا ہے۔
پیر کی رات وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق گذشتہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات جو نو گو علاقے بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے سے دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا۔
’ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دہشت گردی کی عفریت کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی۔‘ 
اعلامیے کے مطابق’ اس وقت ملک میں ایسے کوئی نو گو علاقے نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گذشتہ مسلح آپریشنز سے فیصلہ کن طور پر شکست دی جا چکی ہے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ ’اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔ ‘
’عزم استحکام‘ پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔‘
وزیراعظم آفس کا کہنا ہے کہ ’اس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی رُوح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔‘
’عزمِ استحکام‘ کا مقصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر پہلے سے جاری مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی باقیات کی موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔‘
 حکومت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ’اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔‘

’آپریشن عزم استحکام‘ کا فیصلہ وزیراعظم کی زیرصدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

’اس میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔‘ 
اعلامیے کے مطابق ’ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پذیرائی کرنی چاہیے۔‘
’اس کے علاوہ ہمیں تمام غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے۔‘
یاد رہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے مطابق ’سنیچر کی شام وزیراعظم شہباز شریف نے چاروں صوبوں سمیت تمام فریقین کے اتفاق رائے سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے اور انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو ازسرِ نو متحرک کرنے کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔‘
اس اعلامیے کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ عزم استحکام آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی کوششوں کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘

شیئر: