Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے آپریشن ’عزمِ استحکام‘ کی منظوری

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ذمہ داری ریاست کے صرف ایک ادارے پر چھوڑنا غلطی ہوگی بلکہ صوبوں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔
سنیچر کو نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں صرف افواج پاکستان کی ہی نہیں بلکہ صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے، صوبائی حکومتیں سکیورٹی کی ذمہ داری فوج پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں لیکن ایک مکمل نظام کے بغیر پائیدار استحکام کی توقع نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو وسائل بھی دیے ہیں، اس لیے توقع ہے کہ صوبے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور حصہ ڈالیں گے اور مل کر ناسور کا خاتمہ کریں گے۔
سنیچر کی شام وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔‘
بیان نے مطابق ’وزیراعظم نے کہا کہ ’ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔ عزم استحکام آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘
’سیاسی اور مذہبی قیادت کا پوری طرح واضح ہونا ضروری ہے کہ یہ جنگ ہماری اپنی ہے، اپنی بقا کی جنگ ہے اور کسی غیر کی جنگ نہیں لڑ رہے، اپنی آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا۔ اتفاق رائے اور باہمی مشاورت سے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں اس کی ذمہ داری خود لینا ہوگی، اسے ریاست کے ایک ادارے پر چھوڑنا غلطی ہوگی۔‘
وزیراعظم نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف جسمانی طور پر لڑنا ہی نہیں بلکہ عوام کی آگہی، ڈائیلاگ، طرز عمل کو بدلنا، ملک میں موجود بیانیے کو بھی کاؤنٹر کرنا شامل ہے ہوگا اور اس پر مل کر کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی ممالک کے ساتھ فعال سفارتکاری کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ملکوں میں دہشت گرد تنظمیوں کے لیے جگہ تنگ کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ذمہ داری ریاست کے صرف ایک ادارے پر چھوڑنا غلطی ہوگی۔ فوٹو: اے پی پی

وزیراعظم نے کہا کہ ’قانون سازی کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، قانونی کارروائی دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک قانونی سقم کو باہمی طور پر ختم نہیں کرتے دہشت گردی کا ناسور ختم نہیں ہوگا۔‘
’پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے استحکام اور قانونی کی حکمرانی ضروری ہے۔ ریاست کی عمل داری کو پوری قوت اور بغیر کسی استثنیٰ کے نافذ کرنا میری اور آپ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔‘
انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے ٹھوس اقدامات پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سافٹ ریاست اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد کبھی حاصل نہیں کر سکتی، اس لیے دہشت گردی کا سامنا کرنے والی ایک غیر مستحکم ریاست میں صحت مند اور مضبوط معیشت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
’تمام اداروں کے ساتھ مل کر افواج پاکستان کو اس مسئلے کے لیے قانونی طاقت اور حمایت فراہم کریں گے۔ جنگ کے لیے مؤثر آلات فراہم کریں گے۔ ہم اپنے منصوبوں کو پیچھے کر دیں گے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو بھی چاہیے فوج کو مہیا کریں گے۔‘

وزیراعطم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ فوٹو: اے پی پی

انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف آپریشن یا جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کام کرتی ہیں، اس کے اخراجات صوبے نہیں بلکہ وفاقی حکومت ادا کر رہی ہے، اگر صوبے رینجرز کو طلب کرتے ہیں تو اس کا خرچہ بھی وفاق برداشت کرتا ہے۔
خیال رہے کہ ملک کی سکیورٹی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک دن پہلے جمعے کو سکیورٹی فورسز کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرانے سے پانچ اہلکار جان سے گئے تھے جبکہ اسی دن پاکستان کے دورے پر آئے چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور وزیر لیوجیان چاؤ نے اسلام آباد میں منعقد ایک اجلاس میں پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو سکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ بہتر سکیورٹی کی وجہ سے ہی تاجر سرمایہ کاری کریں گے۔

شیئر: