Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر کی غیرقانونی خرید و فروخت کے خلاف سٹیٹ بینک کے اقدامات کامیاب رہے؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کے لیے کم از کم سرمائے کی ضرورت کو 20 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پاکستان میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور کرنسی کی غیرقانونی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے سٹیٹ بینک کے کیے گئے فیصلوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ گرِے مارکیٹ کے خلاف ایکشن اور ڈالر کی سمگلنگ میں کمی کے باعث ملک میں ڈالر کی اونچی اڑان تھم گئی ہے۔
پاکستان میں اکتوبر 2023 سے اب تک ڈالر کی قدر میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ ستمبر 2023 میں 332 روپے کی سطح پر ٹریڈ کرنے والا ڈالر اب 279 سے 282 روپے کی سطح پر دیکھا جا رہا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں کرنسی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف ایکشن کے نتیجے میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
فاریکس مارکیٹ کے مطابق رواں سال کی ابتدا سے اب تک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستان میں یومیہ چند پیسوں کے اضافے اور کمی تک محدود ہو گئی ہے۔ اس سے قبل ڈالر کی قیمت میں یومیہ کئی کئی روپوں تک کا اضافہ ہوتا تھا۔

ایکسچینج کمپنیوں کے لیے کیا اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بنیادی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے کم از کم سرمائے کی ضرورت کو 20 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کرنے کا اعلان کیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ مختلف اقسام کی ایکسچینج کمپنیوں اور ان کی فرنچائزز کو یکجا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بی کیٹیگری کی ایکسچینج کمپنیوں اور فرنچائزز کو تین ماہ میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس فیصلے سے قبل ملک میں دو اقسام کی ایکسچینج کمپنیاں موجود تھیں۔ ایکسچینج کمپنی اور ایکسچینج کمپنی بی کیٹیگری جبکہ ایکسچینج کمپنی کسی کو بھی فرنچائز دینے کا اختیار رکھتی تھی۔ نئی اصلاحات کے بعد ایکسچینج کمپنیز بی کیٹیگری اور فرنچائزز کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کیا سٹیٹ بینک کے اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہو گیا؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کے اس فیصلے پر ابھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ اس معاملے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سٹیٹ بینک نے بڑا ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔ شہر میں غیرقانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والے اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے ملک میں ڈالر کی قلت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے اور پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کمزور بھی ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 300 روپے سے اوپر ٹریڈ کرنے والا ڈالر اب باآسانی 280 روپے میں دستیاب ہے۔ یہ سٹیٹ بینک کی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔ ادارے نے بروقت سخت فیصلے کیے اور اس پر عمل درآمد کی کوشش کی جس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔‘

پاکستان میں اکتوبر 2023 سے اب تک ڈالر کی قدر میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اصلاحات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک میں ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کر کے امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا گیا، یہ اضافہ گرے مارکیٹ چلانے والوں نے کیا اور چند ہی روز میں لاکھوں کروڑوں روپے کما لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے سرکاری ریٹ سے ہٹ کر لوگ ڈالر کی خرید و فروخت کرنے لگے تھے۔ یہ عمل سراسر قانون کی خلاف ورزی تھا جس سے ملک کو بھاری نقصان پہنچ رہا تھا۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ اس معاملے پر ہم نے سٹیٹ بینک کو آگاہ کیا کہ اگر ڈالر کی غیرقانونی خرید و فروخت کے خلاف فوری ایکشن نہیں لیا گیا تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
’ہماری درخواست پر سٹیٹ بینک نے ایکشن لینا شروع کیا اور پھر دیگر ادارے بھی اس معاملے میں متحرک ہوئے۔ اس کے نتیجے میں گرے مارکیٹ کے خلاف کارروائی شروع ہوئی اور ملک میں ڈالر کا بحران آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔‘
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سٹیٹ بینک کی پیش کی گئی نئی اصلاحات کی روشنی میں لوگ کرنسی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اس سے منی چینجر کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور ملک کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔

گرے مارکیٹ کے خلاف ایکشن اور ڈالر کی سمگلنگ میں کمی کے باعث ملک میں ڈالر کی اونچی اڑان تھم گئی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ کرنسی کا کاروبار ایک حساس کاروبار ہے۔ یہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اسے اصول و قوائد کے تحت نہیں چلایا جائے گا تو اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔
سٹیٹ بینک کی ایکسچینج کمپنیز کے حوالے سے اصلاحات پر بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے بتایا کہ سٹیٹ بینک کی ہدایت کے بعد منی چینجرز نے نئے قانون کے تحت کاروبار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگ اب ڈالر کی خریداری سے زیادہ اس کے فروخت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آنے والے دنوں میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی کا امکان ہے۔ گذشتہ کچھ ماہ میں ڈالر ہولڈ کرنے والوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو گا، اس لیے لوگ اب کوشش کر رہے ہیں کہ ڈالر فروخت کریں۔‘

کیا سٹیٹ بینک 10 بینکوں کو ایکس چینج کمپنیز تک لانے میں کامیاب ہو گیا ہے؟

سٹیٹ بینک کے افسر کے مطابق ابھی تک سٹیٹ بینک 10 بینکوں کو مکمل طور پر ایکسچینج کمپنیز تک لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اب تک پانچ بینک ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ ایکسچینج کمپنی کے طور پر اپنا کام شروع کر دیا ہے جبکہ دیگر بینک ابھی تک پروسس میں ہیں۔

ماہرین کے مطابق ڈالر کا مصنوعی بحران پیدا کر کے اس کی قیمت میں اضافہ کیا گیا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ بینکوں میں ایکسچینج کمپنیز کے قیام کو منی چینجرز کے خلاف اقدام قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بینک چاہتے ہیں کہ ایک جما جمایا کاروبار ان کے حوالے کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے کچھ بینکوں کو فائدہ ضرور پہنچے گا لیکن کئی ایکسچینج کمپنیوں کو نقصان ہو گا اور کاروبار ختم ہوا تو کئی لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو گا۔‘

شیئر: