Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی کا راستہ ہموار نہیں، اجمل جامی کا کالم

پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی کا فیصلہ عمران خان کی صوابدید ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
فواد چوہدری اب ہی کیوں بول رہے ہیں؟ رؤف حسن اور دیگر فواد کی واپسی پر اس قدر سیخ پا کیوں ہیں؟ کیا فواد چوہدری کی واپسی ہونی چاہیے؟ موجودہ قیادت پر عائد الزامات میں کتنی حقیقت ہے؟ جیل میں بیٹھا کپتان کیا واقعی پارٹی میں رد و بدل کا خواہاں ہے؟
پارٹی میں جاری دھڑے بندیوں اور استعفوں سے کیا کپتان اور ان کی مقبولیت پر فرق پڑے گا؟ اور کیا دستیاب قیادت عمران خان کو باہر نکالنے اور سپورٹرز کو موبلائز کرنے میں ناکام رہی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ان دنوں تحریک انصاف کی سیاست پر اٹھ رہے ہیں۔ عملی طور پر آغاز عمر ایوب کے استعفے اور کورٹ پیشی کے بعد ان کے ساتھ سپورٹرز کے سلوک سے ہوتا ہے۔
اطلاع ہے کہ ورکرز نے سینیٹر فیصل جاوید اور عمر ایوب کے ساتھ ناروا سلوک محض فطری ردعمل میں نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے بھی کسی اور کہانی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پھر جنید اکبر مستعفی ہوتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے شیر افضل مروت، شاندانہ گلزار، شہریار آفریدی اور دیگر بھی وکھرا راگ الاپنے میں جڑ جاتے ہیں۔
اس بیچ فواد چوہدری اور کسی حد تک علی زیدی پردہ سکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
ان کے تازہ کلام کا جواب رؤف حسن کی زبانی سننے کو ملتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت کسی طور بھی پارٹی میں واپسی کرنے کے خواہاں سیاستدانوں کی حامی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ فواد چوہدری کے اس خاکسار کے ساتھ ہوئے انٹرویو کے بعد رؤف حسن و دیگر باضابطہ طور پر فواد چوہدری کی باتوں کا جواب نہ دینے کا عزم کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔
اس انٹرویو اور دیگر چند ایک انٹرویوز کے بعد بحثیت صحافی عوامی نبض جانچنے کی کوشش کی تو معلوم ہو ا کہ پی ٹی آئی ورکرز موجودہ قیادت کے کردار سے اگر زیادہ مطمئن نہیں تو پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی پر بھی زیادہ خوش نہیں۔ 
قانونی، پارلیمانی اور عوامی محاذ پر قیادت کی سٹریٹیجی تاحال پارٹی حامیوں کو متاثر نہیں کر سکی۔ واپسی کرنے والوں میں فواد چوہدری کے لیے کسی حد تک نرم گوشہ ضرور پایا جاتا ہے لیکن علی زیدی اور عمران اسماعیل بارے ردعمل خاصا سخت دیکھنے کو ملا۔
فواد چوہدری کی طرز سیاست سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ بہرحال سامنے کی بات ہے کہ ان کی معاملہ فہمی اور سیاسی گفتگو دستیاب قیادت سے کہیں زیادہ موثر ہے۔ یہ قیادت سمجھتی ہے کہ فواد چوہدری دراصل کسی کے کہنے پر اب حرکت میں آئے ہیں اور اس سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔

عمران خان نے بیرسٹر گوہر کو پارٹی چلانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رؤف حسن تو برملا کہہ چکے کہ عمران خان جب تک باہر نہیں آتے ان کی واپسی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فواد چوہدری کے باہر آتے ہی ان کی عمران خان سے بھی ملاقات نہیں ہو سکی۔
ان تمام رہنماؤں کے لیے تلخ حقیقت البتہ یہ ہے کہ جیل میں بیٹھا کپتان اور عوام براہ راست جڑ چکے ہیں، دھڑے چاہے دو درجن بھی ہوجائیں اس سے عوام اور کپتان کے بیچ بنی جڑت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ اس بیچ ایک دوسرے کی بخیہ گیری کرنے والے مزید رسوا اور ہلکے ثابت ہوں گے۔
اسی حقیقت کو کسی اور معنوں میں سمجھتے ہوئے چھوڑنے والے فوراً سے پہلے واپسی کے خواہش مند ہیں اور ان سب کی عدم موجودگی میں پارٹی قیادت سنبھالنے والے ان کی واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے کھڑے ہیں۔
ہاں البتہ حالیہ استعفوں اور توڑ پھوڑ کے بعد جیل میں بیٹھا کپتان اب سنجیدگی سے قیادت میں رد و بدل کا سوچ رہا ہے، لیکن یہ رد و بدل بھی واپسی کے خواہاں افراد کے لیے نہیں بلکہ کسی اور پیمانے پر ہونے کا امکان ہے۔
عمر ایوب کے بعد خالد خورشید ایک فیورٹ امیدوار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ آئی ایس ایف اور یوتھ کے معاملات انہی کے سپرد تھے، یہ کسی دھڑے بندی کا بھی حصہ نہیں اور حالیہ دو برسوں میں اونچ نیچ کے باوجود پارٹی کیساتھ جڑے رہے ہیں۔
شیخ وقاص اکرم نووارد ہیں، کسی نے کان بھرے کہ قبلہ آپ موزوں ہیں، ٹاک شوز میں آپ کی پرفارمنس نے کمال کر دیا، پر تولیں اور سیکریٹری جنرل بنیں۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعی سنجیدہ ہو گئے، حقیقت حال البتہ یہ ہے کہ جھنگ سے منتخب پی ٹی آئی کے اکثر ایم این ایز اور ایم پی ایز کا موصوف سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا پی ٹی آئی کا لیگی حکومت سے۔ اعظم سواتی کا نام بھی زیر بحث آیا لیکن سوچا گیا کہ اس عمر میں شاید وہ اس قدر مصروف عہدہ رکھنے سے قاصر ہوں۔

پاکستان تحریک انصاف کے کارکن عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دھڑے بندیاں اور استعفے دراصل اپنی اپنی پوزیشن کا ادراک کروانے اور عمران خان تک رسائی نہ ہونے کا کارن ہیں۔ لیکن اس کھینچا تانی میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا جس کا ادراک موجودہ قیادت کرنے سے قاصر رہی ہے۔
ایک عرصے سے یہ خاکسار عرض کر رہا ہے کہ ہٹ دھرمی اور ڈیڈ لاک پر ایک خاص حد تک تو پوزیشن لی جاسکتی ہے مگر اس کے بعد بہرحال سیاست کا مدعا ٹیبل پر ہی سلجھایا جاتا ہے۔ سیاسی ٹیبل پر مدعا سلجھانے کے لیے پولیٹیکل انگیجمنٹ درکار ہوتی ہے اور یہ انگیجمنٹ کسی درجے پر کسی بھی فریق کے ہاں سرے سے ہی دکھائی نہیں دیتی۔
مقتدرہ نے ماضی کے برعکس اب کے بار انگیج کرنے والے تمام سابقین اور حاضرین کو تقریباً دیس نکالا دے رکھا ہے، تحریک انصاف کے اندر انگیج کرنے والے افراد بالخصوص شاہ محمود قریشی اندر بند ہیں، پرویز الٰہی رہائی کے بعد خاموش ہیں، فواد چوہدری بول رہے ہیں لیکن واپسی کے لیے۔ لیگی سرکار کے ہاں انگیجمنٹ والے عناصر انگیج تو ہیں لیکن کہیں اور۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جی یو آئی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حضرت مولانا سے بات بن رہی تھی لیکن پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے مولانا شکوہ کرنے پر مجبور ہوئے، مولانا کی پریس کانفرنس ہوئی تو پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اس بیچ البتہ مولانا امریکی قرارداد کو مداخلت قرار دے کر پی ٹی آئی کے ساتھ لکیر کھینچ چکے۔
رہی سہی کسر مخصوص نشستوں کے کیس میں مولانا کی جماعت کے وکیل نے پی ٹی آئی کے موقف کے برعکس رائے دے کر نکال دی۔ یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، عالیہ حمزہ یا دیگر کی پیشیوں اور ان کی خیر خبر لینے کے معاملے پر موجودہ قیادت پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے واپسی کے خواہاں رہنما موثر سیاسی حکمت عملی اور پبلک کو موبلائز کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اب شاید دیر ہوچکی ہے۔ انہیں کپتان کی واپسی کا انتظار کرنا ہو گا۔

شیئر: