Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عزم استحکام مگر کس کے لیے؟ اجمل جامی کا کالم

کہا جارہا ہے کہ یہ آپریشن ماضی کے آپریشنز کی نسبت مختلف ہوگا (فوٹو: مسلم لیگ ن)
ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، سروسز چیف، وزیراعظم، وزرا، تمام وزرائے اعلیٰ اور دیگر ذمہ داران مل بیٹھے اور اس عزم کے ساتھ کہ دہشت گردی کے خلاف ایک نئے عزم کی ضرورت ہے جس سے دیرپا استحکام حاصل کرنا اصل منزل ہے۔ دعائے خیر کرائی گئی۔
اسی مجلس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا  اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بھی موجود تھے، ذمہ دار ذرائع کے مطابق دونوں سے وزیراعظم نے اس بابت بات کی اور انہوں نے اس آپریشن کی بھر پور حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ آخر میں دعائے خیر کے لیے ہاتھ بھی اٹھائے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ آپریشن ماضی کے آپریشنز کی نسبت مختلف ہوگا کیونکہ اب کے بار پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں جہاں عملی طور پر ٹینک اور نفری اتار کر علاقہ خالی کرانا مقصود ہو۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے کہیں بھی جانا پڑا تو گریز نہیں کریں گے۔ فورسز کی استعداد کار اور صوبائی حکومتوں کی عملدرای کو مزید موثر بنایا جائے گا۔  
سوال مگر یہ ہے کہ جنر ل مشرف کے دور سے لے کر اب تک ہر سپہ سالار کے دور میں کیے گئے آپریشنز کے دوران علاقے کلیئر کرائے گئے لیکن ان علاقوں میں معمولات زندگی اور امن و امان کو یقینی بنانا مقامی یا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ایسا کیا ہوا کہ دوبارہ دہشت گردی سر اٹھانے لگی، آئے روز جوان اور افسران شہادتیں پیش کر رہے ہیں؟
چینی سینئیر وزیر ہمیں اندرونی استحکام اور سکیورٹی بہتر بنانے کا مشورہ دے کر جاتے ہیں۔ سی پیک، چین اور چینی وزیر  کے لیے تو تمام سیاسی جماعتیں یک زبان ہو کر ایک چھت تلے بیٹھی دکھائی دیں لیکن سر اٹھاتی دہشت گردی، انتہاپسندی، معاشرتی تقسیم اور معاشی بد حالی پر یہی سیاسی جماعتیں ایک ہونے کو تیار نہیں؟ کیا عزم استحکام اس اہم  مسئلے کو حل کیے بغیر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گا؟
 دہشت گردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا کی سرکار اور پی ٹی آئی اس آپریشن کی بھر پور مخالفت  کر رہے ہیں۔ گو کہ انہی کے اتحادی مجلس وحدت المسلمین کی صوبائی قیادت اس آپریشن کی حامی ہے۔ علی امین گنڈا پور اب عمران خان سے ملاقات کے بعد کہتے ہیں کہ کپتان نے اس آپریشن کی بھر پور مخالفت کی ہے، مزید وضاحت فرماتے ہوتے ہو ئے لطیفہ سناتے  ہیں کہ ایپکس کمیٹی میں ایک نام عزم استحکام کا آیا مگر آپریشن کا ذکر نہیں ہوا۔  
علی امین گنڈا پور البتہ آپریشن نامی لفظ سنے بغیر عزم استحکام کے لیے اسی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ہاتھ اٹھائے دعا فرماتے بھی دکھائی دیے۔ موصوف  دونوں اطراف ’یس باس‘ کا تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہیں جو بہر حال زیادہ دیر کارگر حکمت عملی ثابت نہیں ہوگی۔  
اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر البتہ یہ فرماتے ہیں کہ ماضی میں کون سا آپریشن کامیاب ہوا؟ نیز یہ کہ ایپکس کمیٹی کے بجائے اس مدعے پر پہلے پارلیمان میں بحث ہونی چاہے تھی۔ اصولاً تو ہونا ایسے ہی چاہیے تھا کہ سکیورٹی آفیشلز اور سرکار پارلیمان کو ان کیمرہ بریفنگ دیتی، پھر اس پر بحث ہوتی اور اتفاق رائے کے ساتھ اس عزم کا پالن کیا جاتا جسے عزم استحکام کا نام دیا جا رہا ہے۔

علی امین دونوں اطراف ’یس باس‘ کا تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہیں جو بہر حال زیادہ دیر کارگر حکمت عملی ثابت نہیں ہوگی (فوٹو: پی ٹی آئی)

خواجہ آصف اس فیصلے کے بعد اب کہتے ہیں کہ پارلیمان میں ضرور بحث ہوگی۔ لیکن اب اس بحث سے  فریقین اپنے اپنے موقف پر مزید سختی سے ڈٹے رہیں گے اور نتیجے میں:
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گے
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
چھ ماہ کی اونٹنی جو ابھی ماں کے دودھ پر تھی، اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی، وڈیرہ شاہی میں مظلوم کسان کی نہ سنی گئی، سوشل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے سندھ سرکار حرکت میں آئی اور ایف آئی آر سمیت اونٹنی کی دیکھ بھال اپنے ذمے لی۔ راولپنڈی میں بے زبان گدھے کے کان کاٹ دیے گئے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ایک اور واقعے میں وسطی پنجاب میں آٹھ بکریوں کو درختوں پر لٹکا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ایک دو چینلز پر خبر نشر ہوئی اور معاملہ ختم ہوا۔ سوات میں سیالکوٹ سے آئے سیاح کو توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا گیا، پولیس موجود تھی، بے بس تھی، موب جسٹس نے راہ لی۔ بڑھکتی آگ کے شعلوں میں فلک شگاف نعروں کے بیچ مشتعل ہجوم ویڈیوز بنانے میں مصروف تھا۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں سات برس پہلے مشال خان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ سوشل میڈیا پوسٹ پر مشال کو ہوسٹل سے ڈھونڈا گیا، گھسیٹا گیا، جس کے ہاتھ جو آیا اس نے اس کا استعمال کیا۔ مشتعل ہجوم جب لاش کو آگ لگانے لگا تو پولیس مداخلت پر مجبور ہوئی۔
سیالکوٹ کے دو بھائیوں مغیث اور منیب کی کہانی ہو یا سری لنکن منیجر کے ساتھ پیش آئی واردات، انتہا پسندی اور جنونیت کی ان وارداتوں کے زخموں سے ابھی بھی خون رس رہا ہے جس کے دھبے ہم اپنے دامن پر سجائے دنیا بھرمیں رسوائی کا ساماں لیے پھرتے ہیں۔

اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر کے مطابق ایپکس کمیٹی کے بجائے اس مدعے پر پہلے پارلیمان میں بحث ہونی چاہے تھی (فوٹو: سکرین گریب)

اقلیتوں کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے، ابھی عید کے دنوں میں گھروں سے جانور نکالے گئے، فریجوں سے گوشت نکالا گیا۔ عبادت گاہوں کے جلائے جانے یا ان کی توڑ پھوڑ کے ان گنت منظر ہر برس  ہماری پس ماندگی اور بے بسی کا منہ چڑاتے ہیں۔
عزم پاکستان پارلیمان میں ڈسکس کر لیں یا اپیکس کمیٹی میں، گنڈا پور وہاں ہاں کر آئیں یا  اڈیالہ جا کر ناں، آپریشن کائینیٹک ہو یا نان کائینیٹک، ٹیکنالوجی جدید ہو یا قدیم، سرحد پار جانا ہو سرحد کے اندر رہنا ہو، عزم ہمالیہ سے بھی بلند ہو، کیا فرق پڑے گا؟
جب تک سیاسی عدم استحکام، معاشرے میں پھیلی جنونیت، انتقام کے نام پر درندگی، اور موب جسٹس کی روایت ختم نہیں ہوگی تب تک ایپکس کمیٹی سے لے کر پارلیمان تک ہونے والی بحث اور عزائم ناکافی ہوں گے۔ معاشرہ شانت ہوگیا تو دہشت گردی کی حمایت اور سرکوبی کی ضرورت بھی شاید نہ رہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے اردو نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

شیئر: