Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، اجمل جامی کا کالم

پسند ناپسند کو میرٹ کے برعکس ترجیح دے تو پھر وہی ہوتا ہے جو امریکہ کے خلاف ہمیں دیکھنا پڑا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاست، معیشت، تعلیم یا معاشرہ تنزلی کا شکار ہو اور دیگر شعبے عروج پا رہے ہوں۔
 بیڑہ غرق ہونے کے اثرات بیڑے کے تمام حصوں تک دیر سے سہی، لیکن پہنچتے ضرور ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی تقسیم کے اثرات کرکٹ کے زوال میں بھی اب واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ 
آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ممبر امریکہ کی ٹیم کے پارٹ ٹائم کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں نے سابق ورلڈ چیمپئین اور صف اول کی ٹیم پاکستان کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا۔
دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے بیچ تجربے کے اعتبار سے پانچ سو کے لگ بھگ ٹی20 میچز کا فرق تھا۔ یہ عبرت ناک اور خون کے آنسو رلانے والی شکست کیا ایک اپ سیٹ تھا یا پھر امریکی چمتکار؟ یہ سوال اب غیر اہم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عمارت کی دیواریں جب ہل چکی ہوں اور مسلسل شکست و ریخت کا شکار ہوں تو ایک موقع آتا ہے جب ہلکا سا ہوا کا جھونکا دیواریں سرکانے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے اور یوں چھت بھی آناً فاناً دھڑام سے ڈھیر ہو جاتی ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی بنیادوں سے لے کر دیواروں تک نقب زنی کا سلسلہ دہائیوں سے جاری تھا۔ شکست و ریخت کا شکار دیواریں ہر نئے دور میں بجری سیمنٹ کے بغیر محض رنگ و روغن سے نئی کر دی جاتی تھیں۔ کنکریٹ کے بغیر یہ نقب زدہ کچی دیواریں بھلا کب تک ماضی کی ٹرافیاں ماتھے پر سجائے چھت کو سہارا فراہم کرتیں؟ 
قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی اور بدترین شکستوں کی کہانی نوشتہ دیوار تھی۔ چند ایک ذاتی پرفارمنسز کی بنیاد پر چند ایک فتوحات کا سلسلہ معجزوں سے مزید تعبیر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ گیم اب یکسر بدل کر رہ چکی ہے۔

پاکستانی کرکٹ کی بنیادوں سے لے کر دیواروں تک نقب زنی کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سائنس اور ٹیکنالوجی نے کرکٹ کی سکیم ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ جبھی تو ماضی کے تقریباً تمام لیجنڈز کہنے کو مجبور ہیں کہ اصل گیم تو ٹیسٹ کرکٹ تھی، ٹی20 نے کھیل کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔  
ٹیم سلیکشن سے لے کر کپتانی تک اور پھر کپتانی سے لے کر آن گراؤنڈ پرفارمنس تک، جس شعبے پر بھی نظر ڈالیں، بیڑہ غرق ہے، تھکی ہاری بدن بولیاں، اترے چہرے، لڑنے کی سپرٹ سے عاری مائنڈ سیٹ اور سکِل سیٹ لے کر اترنے والی ٹیم عبرت ناک شکست سے بھلا کیونکر دو چار نہ ہو؟
بابر اعظم ورلڈ کلاس بلے باز ضرور ہیں، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ وہ اتنے ہی ورلڈ کلاس کپتان بھی ثابت ہوں؟ ایسا ہوتا تو سچن ٹنڈولکر اور ڈریوڈ بھی دھونی یا گنگولی جیسے لیجنڈ کپتان ضرور کہلاتے۔
کپتان اپنی کپتانی سے اپنے فیصلوں سے اپنی جرأت، ہمت اور اعتماد سے بازی پلٹتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے شرما نے بھمرا کو آخری اوور دینے کے بجائے سیکنڈ لاسٹ اوور دیا۔ اکشر پٹیل کو دو آوٹ ہونے کے بعد اوپر بھیج دیا۔ تجربہ کامیاب رہا یا ناکام، یہ کہانی بعد کی ہے۔ لیکن ایک ڈیئرنگ فیصلہ کرنے والا کپتان ہی ٹی20 میں کامیاب ہوسکتا ہے۔  
روایتی فیلڈ سیٹ، روایٹی مائنڈ سیٹ، روایتی دفاعی اپروچ ٹی20 کی گیم میں مکمل ناکام ہو چکی۔ بدقسمتی سے ہمارا کپتان اسی روایتی اپروچ کا مارا ہوا ہے۔ یہی کپتان پھر پسند ناپسند کو میرٹ کے برعکس ترجیح دے تو پھر وہی ہوتا ہے جو امریکہ کے خلاف ہمیں دیکھنا پڑا۔

روایتی فیلڈ سیٹ، روایٹی مائنڈ سیٹ، روایتی دفاعی اپروچ ٹی20 کی گیم میں مکمل ناکام ہو چکی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شاداب ڈومیسٹک کیوں نہیں کھیلتے؟ شاداب کا ٹیم میں بنیادی رول کیا ہے؟ کیا شاداب ایک ورلڈ کلاس سپنر ہیں؟ کیا میچ وننگ بلے باز ہیں؟ کپتان سے پوچھا جائے تو وہ مائنڈ کرتے ہیں۔ ساٹھ 70 ٹی20 کھیلنے والے سینیئر کھلاڑی افتخار احمد نے اب تک ٹی20 میں چار یا پانچ ففٹیاں سکور کی ہوں گی، لیکن کیا کوئی ایک بھی میچ ووننگ باری آپ کو یاد ہے؟
کبھی صائم کا تجربہ، کبھی عثمان کا، کبھی فخر کو اوپر کبھی نیچے، کبھی شاداب اوپر کبھی اعظم خان۔ یعنی کوئی ترتیب یا حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ بولنگ اس ٹیم کی ہمیشہ سے بڑی سٹرینتھ رہی ہے، حارث رؤف تیز گیند بازی کے لیے جانے جاتے تھے، کہاں رہ گئی موصوف کی پیس؟ شاہین ابتدائی اوورز میں  بال دونوں اطراف پر سوئنگ کیا کرتے تھے جلد وکٹیں لیا کرتے تھے، کہاں گیا شاہین کا وہ ردھم؟ آ جا کے نوجوان نسیم شاہ باقی بچتا ہے جو گیند بازی سے لے ہارتی ہوئی ٹیم کے لیے آخر میں بلے کے ذریعے بھی آخری دم تک لڑتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جنہیں بلے کے ساتھ اصل میں لڑنا چاہیے وہ پھوہڑ پن کی وجہ سے 120 کا ہدف بھی ناممکن بنا کر پویلین واپس لوٹ جاتے ہیں۔
وسیم جونیئر، ابرار، زمان خان، حارث، اسامہ میر، یا وہ تمام جو پرفارم کرتے آئے ان کے اوپر اعظم خان اور شاداب جیسے، کپتان اور سلیکٹرز کب احتساب کی زد میں آئیں گے؟ ڈومیسٹک کا بیڑہ غرق کرنے والے سائنس دانوں کو جبری رخصت پر کب بھیجا جائے گا؟ سارو گنگولی کے بی سی سی آئی اور بیوروکریٹس سے لے کر ٹیکنوکریٹس کے پی سی بی میں کیا بنیادی فرق ہے؟ فیصلہ سازوں کو یہ سمجھ بوجھ کب اور کیسے آئے گی؟

تمام لیجنڈز کہنے کو مجبور ہیں کہ اصل گیم تو ٹیسٹ کرکٹ تھی، ٹی20 نے کھیل کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

باب وولمر عزت دار اور احساس دل رکھنے والا بندہ تھا، آئرلینڈ سے 2007 میں ہارے تو صدمے سے جانبر نہ ہو سکے۔ امریکہ سے تاریخی ذلت اورانڈیا کے خلاف جیتا جتایا میچ ہارنے کی سبکی لے کر کون ہے جو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہے کہ لیجیے میں کپتانی چھوڑتا ہوں، لیجیے میں سلیکٹری چھورٹا ہوں، لیجیے میں مینیجری چھوڑتا ہوں، لیجیے میں پی سی بی چھوڑتا ہوں؟  
بابر اعظم، وہاب ریاض، منصور، سلیکشن کمیٹی، یا چئیرمین پی سی بی؟  
آپ کا خیال ہے کہ ان سب میں اس قدر اخلاقی جرأت ہوگی۔۔۔؟

شیئر: