Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں پولیس اور شہریوں میں تصادم کے واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

سندھ کے وزیر داخلہ نے پولیس کی کباڑیوں کے خلاف کارروائی کی تحسین کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کراچی گلستان جوہر پولیس تھانے میں چند روز میں شہریوں اور پولیس کے درمیان تصادم کا تیسرا واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے، منگل کو ایک گاڑی کے تنازعے پر پولیس اور وکلا کے درمیان واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل کباڑیوں کی گرفتاری سمیت شہری کو حراست میں رکھنے پر پولیس کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔
کراچی ضلع شرقی کی حدود میں آنے والے پولیس سٹیشنز کے خلاف مسلسل اعلیٰ پولیس حکام کو شکایات موصول ہو رہی ہیں، اس ضلع میں گلشن اقبال، گلستان جوہر، جمشید روڈ، بہادر آباد، سہراب گوٹھ، ایم نائن موٹر وے، سکیم 33 سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
ان میں سے بیشتر علاقے نئے آباد ہوئے ہیں، جہاں زمین کے تنازعے، رہائشی اور کمرشل گھروں اور عمارتوں کی تعمیرات سمیت دیگر معاملات کا پولیس کو سامنا ہے۔
ان واقعات کے علاوہ اس ضلع میں کراچی شہر کے بس ٹرمینل میں پیش آنے والے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔ بس ٹرمینل اور این نائن موٹر وے کی وجہ سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بسوں کے ذریعے سامان کی سمگلنگ کے معاملات آئے روز اسی علاقے سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھی سب سے زیادہ اسی علاقے میں آباد ہیں۔
کراچی ضلع ایسٹ کے تھانے گلستان جوہر میں پولیس اور شہریوں کے درمیان تصادم کا ایک واقعہ منگل کی رات اس وقت پیش آیا جب پولیس کی جانب سے ایک شہری کی گاڑی کو تحویل میں لے کر تھانے منتقل کیا گیا اور گاڑی کا ریلیز آرڈر لے کر عبدالقادر نامی وکیل تھانے پہنچے، ڈیوٹی پر موجود سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) اور وکیل کے درمیان تلخی ہوئی۔
ایڈووکیٹ عبدالقادر نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ انہیں حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور لاک اپ میں بند کیا گیا۔ واقعے کی اطلاع دیگر دوست وکلا کو دی، جب وہ تھانے پہنچے تو پولیس نے دیگر وکلا کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
واقعے کے بعد کراچی بار کے ذمہ داران نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا، اور ایس ایچ او سمیت تشدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، اور ایکشن نہ ہونے کی صورت میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا۔
صدر کراچی بار عامر وڑائچ نے بتایا کہ پولیس کے تشدد سے ہمارے چار وکلا زخمی ہوئے۔ وکلا پر تشدد کرنے والوں کے خلاف ہر صورت مقدمہ درج کرائیں گے۔

کراچی پولیس کے سابق پولیس افسر محمد زاہد کے مطابق سرکاری سرپرستی سے پولیس کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ترجمان ایس پی ضلع ایسٹ پولیس کے مطابق وکلا کو بتایا جا چکا ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جائے گی، جو بھی قصور وار ہوگا اسے قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔
پولیس نے ابتدائی انکوائری میں شواہد ملنے پر ایس ایچ او کو معطل کر دیا، اور تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کےخلاف مقدمہ درج کیا۔ مقدمے میں دہشتگردی، اقدام قتل اور تشدد سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
گلستان جوہر پولیس سٹیشن کے اہلکاروں اور کباڑ کا کاروبار کرنے والوں کے درمیان ایک ماہ قبل تصادم کا واقعہ پیش آیا تھا۔ کراچی کے علاقے گلستان جوہر تھانے کی حدود میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تیـن افراد کو حراست میں لیا تھا، پولیس کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد کباڑ کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد کو مخبر خاص کی انفارمیشن پر گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ کراچی شہر میں چوری کے سامان کی خرید و فرخت میں ملوث تھے۔
کباڑیوں کی گرفتاری کے خلاف دیگر کباڑی گلستان جوہر تھانے پہنچے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، پولیس تھانے کے سامنے احتجاج کرنے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا تو مظاہرین نے پولیس پر پتھراو کیا، اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ڈنڈے بھی برسائے گئے، واقعے میں پولیس اہلکار اور متعدد کباڑی زخمی ہوئے۔
پولیس نے پانچ افراد کے خلاف سرکاری مدعیت میں دو مختلف مقدمات درج کیے، کباڑیوں کے خلاف درج کیے گئے مقدمات میں چوری اور دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔  

کراچی کے ضلع شرقی میں کئی نئی آبادیاں شامل ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

کباڑ کا کاروبار کرنے والوں نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ انہیں بلا وجہ تنگ کیا جاتا ہے، آئے روز کباڑیوں کو حراست میں لے کر جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں پھنسایا جاتا ہے۔

کباڑیوں کےخلاف کارروائی درست: صوبائی وزیر داخلہ

پولیس کی کباڑیوں کے خلاف کارروائی پر صوبائی وزیر داخلہ نے پولیس کے کردار کو سراہا، انہوں نے کہا کہ کباڑیوں کے خلاف کارروائی سے جرائم میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
صوبائی وزیر ضیا لنجار نے سندھ اسمبلی میں سی پی ایل سی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ صوبے میں جرائم کی وارداتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، 300 سے زائد کباڑیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب چوری کے سامان کا کوئی خریدار ہی نہیں ہوگا تو سامان کسی کے کام کا نہیں ہوگا۔

کیا صوبائی وزیر کی حمایت پر پولیس کا حوصلہ بڑھا؟

کراچی پولیس کے سابق پولیس افسر محمد زاہد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت پولیس کے اقدامات کو مکمل سپورٹ کرتی ہے تو جوانوں کا بھی حوصلہ بلند ہوتا ہے۔
صوبائی وزیر کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام سی بات ہے کہ وزیر داخلہ اعداد وشمار پیش کرے اور موجودہ صورتحال میں بہتری کا کریڈٹ لے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو پولیس کے تشدد کے رویے سے نہیں جوڑا جاسکتا، پولیس میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں جیسے ملک کے دیگر شعبوں اور اداروں میں موجود ہیں۔ کسی ایک واقعہ کو پولیس کا چہرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

شیئر: