Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اغوا برائے تاوان میں ملوث کراچی پولیس کے چار اہلکار نوکری سے برطرف

ملزمان محکمہ پولیس کی بنائی گئی کمیٹی کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے شہر کراچی میں انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے پولیس اہلکاروں کو شہریوں کو مختصر دورانیے تک اغوا کرنے کے الزام میں نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی ٹی ڈی نے ان چار پولیس اہلکاروں کو برطرف کیا۔
کراچی ٹیپو سلطان پولیس سٹیشن میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف شہری نے مقدمہ درج کرایا تھا۔
اپنی درخواست میں شہری نے پولیس کو بتایا کہ اسے نامعلوم سادہ لباس افراد نے اغوا کر کے چار لاکھ روپے تاوان کے عوض رہا کیا۔
اس مقدمے کے مدعی کے مطابق ملزمان نے انہیں اپنا تعارف سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے طور پر کرایا تھا اور انہیں دیگر افراد کے ہمراہ گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں قید رکھا۔
اغوا کیے گئے شہریوں میں شامل ایک صحافی نے پولیس اہلکاروں کو اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ میڈیا سے وابستہ ہے، جس کے بعد ملزمان نے انہیں واقعے پر خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کے ساتھ رہا کر دیا تھا۔
پولیس نے مدعی مقدمہ کی درخواست پر کارروائی کا آغاز کیا اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے۔
ملزمان پولیس کی بنائی گئی کمیٹی کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس کے بعد کمیٹی نے رپورٹ ڈی آئی جی کو پیش کی۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ نے رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہوئے سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت تین اے ایس آئیز کو نوکریوں سے برطرف کر دیا۔  
کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کہ ’سی ٹی ڈی اہلکار سب انسپکٹر رفاقت علی، اسسٹنٹ سب انسپکٹر جہانزیب، اے ایس آئی لیاقت علی اور  اے ایس آئی محمد حارث نے شہریوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا اور ان سے پیسے طلب کیے۔‘
کراچی میں مختصر دورانیے کے اغوا نئی بات نہیں
کراچی کے مختلف علاقوں میں آئے روز شہریوں کی جانب سے یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ انہیں نامعلوم افراد اپنے ہمراہ لے گئے اور کچھ رقم کے عوض انہیں رہائی حاصل کرنی پڑی۔
پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں اس سے  قبل بھی کئی پولیس اہلکاروں کو شارٹ ٹرم کڈنیپنگ (مختصر دورانیے کے اغوا) کے الزامات میں معطل کیا جا چکا ہے۔ 
کراچی رنچھوڑلائن کے رہائشی محمد جاوید بھی مختلف دورانیے کے اغوا کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تین برس قبل انہیں سادہ لباس میں ملبوث چند افراد پولیس کی موبائل وین میں بٹھا کر اپنے ہمراہ لے گئے۔ بعد ازاں انہیں بتایا گیا کہ جرائم میں ملوث ایک گروہ نے پولیس کو بتایا کہ ہے کہ وہ اس گروپ کی مدد و معاونت کرتے ہیں۔
Countering terrorism: Special police stations on the cards
ماضی میں بھی کئی پولیس اہلکاروں کو اغوا برائے تاوان کے الزامات میں معطل کیا جا چکا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

محمد جاوید کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس کو سمجھانےکی  بہت کوشش کی کہ وہ کسی جرائم پیشہ گروپ کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔ لیکن وہ اس میں ناکام رہے اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران ان کے پاؤں اور ہاتھوں میں شدید چوٹیں آئیں۔ ’دو روز بعد پولیس اہلکاروں نے اہلخانہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر جاوید کی رہائی چاہتے ہیں تو دو لاکھ روپے لے کر آ جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گھر میں دو لاکھ روپے تو موجود نہیں تھے، دوستوں، رشتہ داروں سے کچھ پیسے ادھار لیے اور کچھ گھر سے لے کر ایک لاکھ 75 ہزار روپے دیے تو انہیں رہا کیا گیا۔
محمد جاوید آج بھی اس واقعے کو یاد کر کے ڈر سے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم نے کوئی رپورٹ درج کرائی اور نہ ہی اب کسی کو کچھ بتاتے ہیں۔ بس ایک آزمائش تصور کر کے اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
پولیس حکام کا ’کالی بھیڑوں‘ کے خلاف کارروائی کا عزم
ایڈیشنل آئی جی سندھ عمران یعقوب منہاس کا کہنا ہے کہ وہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو کسی صورت محکمے میں برداشت نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں اچھے کام کرنے والے افسران کی کارکردگی کو نقصان پہنچانے والے مٹھی بھر افراد کے خلاف مسلسل کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حال ہی میں مختلف جرائم میں ملوث افراد کو ناصرف معطل کیا ہے بلکہ نوکریوں سے بھی فارغ کیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک پولیس سے ان کالی بھیڑوں کا خاتمہ نہیں ہو گا، عوام اور پولیس کا تعلق بہتر نہیں ہو سکے گا۔‘
پولیس کی جانب سے رواں ماہ 34 پولیس اہلکاروں کو بی کمپنی بھی کیا گیا ہے۔ آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے مختلف الزامات کا سامنا کرنے والے 34 افسران و اہلکاروں کو بی کمپنی ہیڈ کوارٹر گارڈن بھیجنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

شیئر: