Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں ’ابابیل فورس‘ سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکام، تبدیلی کا فیصلہ

سی سی پی او کے مطابق ’ابابیل فورس سے متعلق شہریوں کو بلا وجہ تنگ کرنے اور پیسے لینے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔‘ (فوٹو: کے پی پولیس)
پشاور میں سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے 2021 میں ابابیل فورس کو تعینات کیا گیا تھا جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
 پشاور میں جرائم کی شرح  زیادہ ہے جس میں قتل و غارت کے علاوہ سٹریٹ کرائم کے واقعات بھی شامل ہیں۔ پشاور میں سٹریٹ کرائم کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر 2021 میں پولیس کی خصوصی فورس قائم کی گئی تھی جسے ابابیل کا نام دیا گیا۔ 
ابابیل فورس کے 400 سے زائد اہلکاروں کو جدید موٹرسائیکلوں سمیت اسلحہ سے لیس کرکے شہر سے سٹریٹ کریمینلز کی بیخ کنی کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ 
ابابیل فورس ناکام کیوں ہوئی؟ 
پولیس حکام کے مطابق پشاور میں ابابیل فورس کی ناکامی کی بڑی وجہ غیر مقامی یعنی دوسرے اضلاع کے باشندوں کو پشاور ابابیل فورس میں تعینات کرنا ہے جن کو پشاور کے گلی محلوں کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔
 بیشتر سٹریٹ کریمینلز اور راہزن ابابیل فورس کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بھاگنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔  کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاسم علی خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابابیل فورس میں مقامی افراد کی بھرتی کی تجویز دی گئی ہے، تاہم جو دیگر علاقوں کے اہلکارہیں ان کو آبائی اضلاع میں بھیج دیا جائے گا۔‘
سی سی  پی او قاسم علی کے مطابق ’ابابیل فورس سے متعلق شہریوں کو بلا وجہ تنگ کرنے اور پیسے لینے کی شکایات بھی سامنے آئیں جن پر ایکشن بھی لیا گیا ہے۔ ابابیل فورس نے بہت سے کیسز میں کامیابی بھی حاصل کی ہے، متعدد ڈکیتی اور راہزنی کے واقعات کو ابابیل فورس کے اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرکے ناکام بنایا۔‘
ابابیل فورس میں تبدیلی کی تیاری
 قاسم علی کا کہنا تھا کہ ابابیل فورس کے لیے نئی بھرتیوں کی تجویز دی گئی ہے جس میں پشاور کے شہریوں کوترجیح دی جائے گی، تاہم اس کے علاوہ ابابیل سکواڈ کو متعقلہ تھانے اور ایس پی کے زیر نگرانی کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ابابیل فورس اپنی مرضی سے چیکنگ پوائنٹس بناتی تھی مگر اب وہ متعلقہ تھانیدار کی اجازت سے چیکنگ کریں گے۔ سی سی پی او کے مطابق ابابیل فورس متعلقہ ڈویژن کے ایس پی کو رپورٹ کرے گی۔ 
’ابابیل فورس کو ختم نہیں جارہا بلکہ مزید مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں تاکہ سٹریٹ کریمینل کے خلاف کارروائی میں کامیابی مل سکے۔ پشاور کے سٹریٹ کرائمز میں کمی آئی ہے جس کی ایک مثال جرائم کا نیچے گرتا ہوا گراف ہے۔‘
 کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر نے مزید کہا کہ پشاور کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ پولیس فورس کی تعداد کم ہے، اسی لیے نئی بھرتیوں کی درخواست بھیجی گئی ہے۔ اگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے بھرتیاں نہ ہوئیں تو دیگر شہروں سے آسامیوں کو پشاور کو دینے کی تجویز بھی دی جائے گی۔

پشاور کے بعد مردان، کوہاٹ اور صوابی میں بھی ابابیل فورس کو قائم کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہر واقعے کا مقدمہ درج ہوگا
قاسم علی نے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے واقعے کی رپورٹنگ بہت ضروری ہے یعنی ہر واقعے کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جائے گی، جب تک مقدمہ درج نہیں ہوگا کیس کو ٹریس کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام پولیس افسران کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو ایف آئی آر درج کیے بغیر تھانے سے نہیں بھیجا جائے گا۔ 
ابابیل فورس کی کارکردگی سے شہری بھی ناخوش
پشاور میں سٹریٹ کرائمز کی وجہ سے شہری پریشان ہیں اور ابابیل فورس کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا شکوہ کررہے ہیں۔ شہریوں نے الزام لگایا کہ ابابیل فورس ڈیوٹی کے بجائے سارا دن دکانوں اور مارکیٹوں میں بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ مزید کہا کہ ابابیل فورس کے اہلکاروں کے پاس جدید موٹرسائیکل ہیں، ہتھیار ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ آج تک وہ کسی راہزن کو گرفتار نہیں کرسکے۔ 
پشاور پولیس کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ابابیل سکواڈ کےخلاف شکایات بہت زیادہ ہیں۔ اب ان کو ڈویژن کے ایس پی کے حوالے کیا جا رہا ہے جس کے بعد بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابابیل فورس پر جرائم پیشہ افراد سے رشوت لینے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ ان الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے اب ابابیل فورس میں اب بڑی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ پشاور کے بعد مردان، کوہاٹ اور صوابی میں بھی ابابیل فورس کو قائم کیا گیا ہے۔

شیئر: