Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک کو ایک بڑے ’ری سیٹ‘ کی ضرورت ہے: نومنتخب برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر

لیبر پارٹی کے کیئر سٹارمر وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے (فوٹو: روئٹرز)
برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ وہ ملک کے تمام عوام کی بلاامتیاز خدمت کریں گے۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے وزیراعظم کیئر سٹارمر نے جمعے کو ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچنے پر عوام سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’شاہ چارلس نے مجھے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے جو میں نے قبول کر لی ہے۔‘
انہوں نے سابق وزیراعظم رشی سوناک کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’رشی سوناک اس عظیم ملک کے پہلے ایشائی وزیراعظم بنے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ملک کو ایک بڑے ری سیٹ کی ضرورت ہے۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کون ہیں۔‘
’جن لوگوں نے ہمیں ووٹ نہیں دیا ہم اس کی بھی خدمت کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک کو بدلنا کوئی بٹن دبانے جیسا نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں بہت زیادہ عدم استحکام ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تبدیلی پر فوری کام کا آغاز کرنا ہو گا۔‘
’ہم برطانیہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔ ہم مواقع پیدا کریں گے۔ ورکنگ کلاس کی زندگی کو بہتر بنائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں برطانیہ آپ کے بچوں کے کے بہتر جگہ ہو۔‘
’آپ نے ہمیں واضح مینڈیٹ دیا ہے جسے ہم آپ کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے۔‘
رشی سوناک نے عوام سے معافی مانگی
دوسری جانب برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے عوام سے معافی مانگی ہے اور کہا کہ وہ پارٹی لیڈر کے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’مجھے افسوس ہے۔‘
رشی سونک نے کنگ چارلس III کو وزیراعظم کے طور پر اپنا استعفیٰ دینے کے لیے ڈاؤننگ سٹریٹ چھوڑنے سے پہلے کہا کہ ’میں نے آپ کا غصہ، آپ کی مایوسی دیکھی ہے، اور میں ذمہ داری لیتا ہوں۔‘
برطانیہ کی لیبر پارٹی نے ملک کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے جبکہ کنزرویٹیو پارٹی کے وزیراعظم رشی سونک کی کابینہ کے نو وزرا الیکشن جیتنے میں ناکام رہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لیبر پارٹی نے ہاؤس آف کامنز میں ورکنگ اکثریت کے لیے 326 سیٹوں کی حد عبور کر کے 14 برس سے اقتدار میں کنزرویٹیو پارٹی کو ووٹرز نے مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور اختلافات جن کے باعث 2016 میں بریگزٹ کے بعد سے پانچ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، کی بنیاد پر مسترد کر دیا ہے۔
لیبر لیڈر کیئر سٹارمر نے لندن میں فتح کی خوشی میں جمع حامیوں سے خطاب میں کہا کہ ’اس طرح کا مینڈیٹ ایک بڑی ذمہ داری لے کر آتا ہے۔‘
 کنزرویٹیو پارٹی کے وزیراعظم رشی سونک کی کابینہ کے نو وزرا الیکشن جیتنے میں ناکام رہے جبکہ سابق وزیراعظم لِز ٹرس بھی اپنے حلقے سے جیتنے میں ناکام رہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایگزٹ پول یعنی رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی کے رشی سوناک کو تاریخی شکست کا سامنا ہے۔
650 رکنی پارلیمان میں سے لیبر پارٹی کے 410 سیٹیں جیتنے کا امکان ہے جو پانچ سال پہلے کے مقابلے میں حیران کن جیت ہو گی۔
وزارت عظمیٰ کے امیدوار کیئر سٹارمر نے لندن سے سیٹ جیتنے کے بعد کہا ’آج رات لوگوں نے یہاں پر اور ملک بھر میں اپنی رائے دے دی ہے اور وہ تبدیلی کے لیے تیار ہیں کہ پرفارمنس کی سیاست کا خاتمہ اور عوامی خدمت کی سیاست کی واپسی چاہتے ہیں۔‘
’تبدیلی کا آغاز یہاں سے ہوگا۔ کیونکہ یہ آپ کی جمہوریت ہے، آپ کی کمیونٹی ہے اور آپ کا مستقبل ہے۔ آپ نے ووٹ دیا ہے اور اب ہماری باری ہے کہ ڈیلیور کریں۔‘
کیئر سٹارمر کو سست روی کا شکار معیشت، کمزور پبلک سروس اور  رہن سہن کے گرتے ہوئے معیار سے جڑے مسائل کا سامنا ہوگا جو کنزرویٹو پارٹی کی شکست کی وجہ بنے ہیں۔
رشی سوناک کی کنزرویٹو پارٹی کے 131 سیٹیں جیتنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو تاریخ کی بدترین کارکردگی ہے۔

لیبر کی جیت کے ساتھ کنزرویٹوز کا 14 سالہ دور اختتام کو پہنچ جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ووٹرز نے کنزرویٹو پارٹی کو رہن سہن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سیاسی عدم استحکام اور اختلافات جن کے باعث 2016 میں بریگزٹ کے بعد سے پانچ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، کی بنیاد پر مسترد کر دیا ہے۔
ابتدائی نتائج کے تحت متعدل جماعتوں میں سے چھوٹی اپوزیشن پارٹی ’لبرل ڈیموکریٹ‘ نے 61 نشستوں کے ساتھ سکاٹش نیشنل پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سرکاری نتائج کا اعلان آج جمعے کو ہی متوقع ہے جس کے بعد جیتنے والی جماعت کے رہنما کی ملاقات شاہ چارلس سوم کے ساتھ ہوگی جو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔
برطانوی پارلیمانی نظام کے مطابق کسی بھی جماعت کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی نے سنہ 1906 میں 156 نشستوں کے ساتھ بدترین کارکردگی دکھائی تھی۔
حالیہ انتخابات کے نتائج سے لیبر پارٹی کو 2019 کے عام انتخابات کے مقابلے میں حیران کن واپسی ہوئی ہے جب 1935 کے بعد سے بائیں بازو کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

شیئر: