Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کا بجلی کے بلوں میں اضافی یونٹ شامل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم

وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی صارفین کے بِلوں میں مصنوعی طور پر اضافی یونٹ شامل کرنے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے سنیچر کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ ایسے عوام کے دشمن افسران و اہلکاروں کو معطل کر کے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے ایسے افسران و اہلکاروں کی نشاندہی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے ایک اجلاس میں وزیر توانائی اویس لغاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’غریب ترین طبقے کے یونٹس کو 197 سے 204 یا 201 تک لے کے جانا ظلم ہے۔ 200 سے اوپر ایک بھی یونٹ کسی نے بڑھایا ہے اس نے غریب پر ظلم ڈھایا ہے۔ انہیں آپ فوری طور پر معطل کریں اور ان کے کام انکوائری کریں۔‘
قبل ازیں مقامی میڈیا کے مطابق لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین کو مبینہ طور پر اووربلنگ کے معاملے پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے انکوائری شروع کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مبینہ طور پر زائد بل ڈالے گئے ہیں۔ اووربلنگ کے باعث ان پروٹیکیٹڈ صارفین کی کیٹیگری تبدیل ہو گئی اور انہیں کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔
ترجمان ایف آئی اے کےمطابق ڈائریکٹر کسٹمر سروسز لیسکو اور ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں جس میں لیسکو افسران سے بلنگ کا ڈیٹا اور دیگر تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔

لیسکو کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین کو مبینہ طور پر اووربلنگ کے معاملے پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کر دی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور سرفراز ورک کا کہنا تھا کہ اووربلنگ بلنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔
خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز میں بھی صارفین سے بجلی کے زائد بل وصول کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیرِنگرانی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بجلی کے 80 کروڑ سے زائد اضافی یونٹ عوام پر ڈالے گئے۔ ایسے تمام افسران کا محاسبہ کیا جائے گا جو بجلی کے اضافی یونٹ ڈالنے کے ذمہ دار ہیں۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کے خلاف یہ ایکشن ایف آئی اے کے ذریعے کیا گیا تھا۔

شیئر: