Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف آئی اے کا اووربِلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کس حد تک قانونی ہے؟

دو روز قبل گوجرانوالہ کی کمپنی گیپکو کے 20 افسران اور ملازمین کو گرفتار کیا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ان دنوں وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیرِنگرانی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ بجلی کے 80 کروڑ سے زائد اضافی یونٹ عوام پر ڈالے گئے۔ ایسے تمام افسران کا محاسبہ کیا جائے گا جو بجلی کے اضافی یونٹ ڈالنے کے ذمہ دار ہیں۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کے خلاف یہ ایکشن وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
پچھلے ایک مہینے سے جاری اس کریک ڈاون میں گذشتہ چند دنوں میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ لاہور ڈویژن کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی لیسکو کے دو افسران کو اووربلنگ کرنے پر حراست میں لیا گیا تو دو روز قبل گوجرانوالہ کی کمپنی گیپکو کے 20 افسران اور ملازمین کو گرفتار کیا گیا۔
یہی صورت جمعرات کو بھی دیکھنے کو ملی جب فیصل آباد سے فیسکو کے کئی ملازم اور افسران کو ایف آئی اے نے حراست میں لے لیا۔
 لیسکو کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت خوف کا عالم ہے اور افسران نہ تو اپنے گھروں میں سو رہے ہیں اور نہ دفاتر میں کام کرنے آ رہے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہو کیا رہا ہے۔ اس پکڑ دھکڑ سے کام بھی بہت متاثر ہو رہا ہے اور حکومتی پالیسی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ ایف آئی اے والے آتے ہیں، سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیتے ہیں اور اسی ریکارڈ پر گرفتاریاں شروع کر دیتے ہیں جبکہ انہیں تکنیکی معاملات کا علم نہیں۔‘

اووربلنگ پر قانون کیا کہتا ہے؟

لیسکو کے ڈائریکٹر سی ایم یو مقصود احمد کے مطابق اووربلنگ کے حوالے سے قانون پہلے ہی موجود ہے۔
’اگر کسی کو اووربلنگ کی شکایت ہے تو وہ کمپنی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے درخواست دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت کا الیکٹرک سپروائز آزادانہ تحقیقات کرنے کا قانونی حق رکھتا ہے جبکہ نیپرا بھی ایسی شکایات کو سنتا ہے اسی طرح آخر میں وفاقی محتسب بھی اووربلنگ کیس کی سماعت کرتا ہے۔‘

وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیرِنگرانی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

ملک بھر میں جاری ڈسکوز افسران اور اہلکاروں کی گرفتاریوں کے بعد ورکرز یونیز بھی متحرک ہو گئی ہیں۔ گوجرانوالہ میں 20 اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد گیپکو کے تمام افسران اور اہلکاروں نے سرکاری موبائل فون واپس کر دیے ہیں اور احتجاجاً کام بند کر دیا ہے۔
ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز ایسوسی ایشن کے وائس چئیرمین ولی الرحمن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سب کچھ غیرقانونی طریقے سے ہو رہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایف آئی اے اپنا کام نہ کرے اور کرپٹ افراد کو نہ پکڑے لیکن جو طریقہ کار قانون میں درج ہے اسے استعمال کیا جائے۔ اور وہ طریقہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو افسر کے ذریعے چھان بین کی جائے۔ نہ کہ دفاتر میں گھس کر شریف لوگوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں۔‘
اووربلنگ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اووربلنگ کس کی پالیسی ہے؟ یہ حکومتی پالیسی ہے۔ جو پیسہ بھی اووربلنگ کا ہوتا ہے وہ سرکاری خزانے میں جاتا ہے۔ حکومت اوور بلنگ نہیں کرنا چاہتی تو جن کو اووربلنگ کی گئی ہے ان کے پیسے واپس کیے جائیں، افسران کو کیوں رگڑا لگایا جا رہا ہے؟ یا تو افسران یا اہلکار اووربلنگ کر کے پیسہ گھروں میں لے کر جا رہے ہیں پھر تو سمجھ آتی ہے کہ انہیں پکڑا جائے، جب وہ رقم خود حکومت کی ایما پر اکٹھی کر کے خزاے میں جاتی ہے تو حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق بجلی کے 80 کروڑ سے زائد اضافی یونٹ عوام پر ڈالے گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ولی الرحمن کا کہنا تھا کہ ’ہم کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کے خلاف نہیں لیکن سب کو ایک ڈنڈے سے ہانکنا درست نہیں۔ اگر ایک گریڈ سے دولاکھ بجلی کے یونٹ استعمال ہوئے ہیں اور ریکوری ایک لاکھ یونٹ کی ہوئی ہے تو لائن لاسز اووربلنگ سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اور یہ سب حکومت کے علم میں بھی ہے۔ ہمارا ایک وفد محسن نقوی صاحب سے ملاقات کے لیے جا رہا ہے۔ تاکہ ان کو اصل بات سمجھائی جا سکے۔‘

ایف آئی اے کا کیا موقف ہے؟

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن یونٹ کو اووربلنگ پکڑنے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔
ایف آئی اے اسلام آباد اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ ڈپٹی ڈائریکٹر افضل نیازی کہتے ہیں کہ کچھ بھی غیرقانونی نہیں ہو رہا ہے۔
’بجلی چوری روکنے کے لیے پہلے سے ہی قانون میں ایف آئی اے کو اختیار دیا گیا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 462 اسی سے متعلق ہے۔ بجلی چوری سے جڑے معاملات بھی ہمارے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ایک طرف بجلی چوری کروا کر اس کا بل عوام کا ڈالا جا رہا ہے تو یہ کرپشن ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کہ پریوینشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کے دائرے میں ہم ان کرپٹ افسران کو پکڑ رہے ہیں جو براہ راست بجلی چوری اور اووربلنگ میں ملوث ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوئی رعایت کسی کو نہیں دی جائے گی۔‘

ملک بھر میں جاری ڈسکوز افسران اور اہلکاروں کی گرفتاریوں کے بعد ورکرز یونیز بھی متحرک ہو گئی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اووربلنگ کے حوالے سے قانون کی الگ سے موجودگی کے ایک سوال پر افضل نیازی کا کہنا تھا کہ ’نیپرا کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ہے نہ ہی سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے۔ چونکہ یہ جرم تعزیرات پاکستان کے تحت ہے اس لیے یہ سیدھا سیدھا ایف آئی اے کا معاملہ ہے۔‘
ایف آئی اے کے قانون پر دسترس رکھنے والے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سجاد حسین کہتے ہیں کہ بظاہر تو ایف آئی اے کی اووربلنگ کے خلاف کارروائی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔
’ایف آئی اے ایک وفاقی ادارہ ہے اور بجلی چوری کے حوالے سے پہلے ہی اس کی خدمات ایک قانون کے تحت حکومت وقتاً فوقتاً حاصل کرتی رہتی ہے، اب وزیر داخلہ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر سے اینٹی کرپشن یونٹ کو اووربلنگ کے خلاف کام پر لگا دیا ہے تو میرے خیال میں اس کے لیے الگ سے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔‘
مبصرین کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران، ملازمین اور ایف آئی اے کے درمیان کشمکش اور تیز ہو گی جس سے کام متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

شیئر: