Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، ’کیس اپنے طریقے سے چلائیں گے‘

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ملزمان کو ایسی حالت میں رکھا گیا ہے جیسا درخواستگزار کے وکلا بیان کر رہے ہیں تو غلط ہے، بہتر ہوگا اس کیس کو چلا کر فیصلہ کریں۔‘
پیر کو سپریم کورٹ کے سات رُکنی لارجر بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ہفتوں سے ملزمان کے اہلخانہ کو اُن سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔
درخواستگزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملزمان کو بُرے حالات میں رکھا گیا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتہ کہ برے حالات میں رکھا ہے؟‘
درخواستگزاروں کے وکلا نے بتایا کہ ’جو لوگ پہلے ملے ان سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے تھے۔‘
جسٹس جمال خان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسا یہ بیان کررہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر یہ مناسب نہیں۔ انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میری معلومات تھیں کہ ہر جمعرات کو ملاقات ہو رہی ہے۔ میں چیک کر لیتا ہوں۔‘ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں کہا کہ وہ تفصیلی رپورٹ دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’کیس کو مکمل ہونے دیں۔ اگر ایسے چلتا رہا تو کیس مکمل ہو ہی جائے گا۔‘
درخواستگزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ زیرحراست ملزمان کو سویلین حراست میں دیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’قانون کی شقیں چیلنج ہیں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔‘
حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے بیٹے سے جو آخری ملاقات ہوئی اس عدالت کی مہربانی سے ہوئی۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’ملاقات مہربانی نہیں بلکہ آپ کا حق تھا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’ہم کیس شروع کریں گے تو کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔‘
عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ کو بینچ پر اب اعتراض تو نہیں؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم اس بینچ سے خوش ہیں، استدعا ہے کہ کیس چلا کر فیصلہ کیا جائے۔‘
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’ہم کیس آپ کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے طریقے سے چلائیں گے۔‘
حامد خان لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے پیش ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو ہم معاون کے طور پر سن لیں گے۔‘
انہوں نے پوچھا کہ ’آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ’بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے اس معاملے پر۔‘
فیصل صدیقی نے سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی، انہوں نے کہا کہ ’عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ کرے، میں ایسی درخواست کی پیروی نہیں کرتا۔‘
وکیل حامد خان کی فریق بننے کی درخواست 2-5 سے منظور کر لی گئی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت 11 جولائی تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار دیتے ہوئے نو مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ برس دسمبر میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔

شیئر: