Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات سے بھکاریوں کی ’ضلع بدری‘ کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات میں عوامی شکایات کے بعد انتظامیہ نے گداگروں کو ضلع بدر کرنا شروع کر دیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے پُرفضا مقامات میں موسم گرما میں پورے ملک سے سیاح آتے ہیں جن میں سب سے زیادہ رش مالاکنڈ ڈویژن کے سوات، کالام، دیر اور چترال کے علاقوں میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہزارہ ڈویژن میں کاغان، ناران اور گلیات سیاحوں کے پسندیدہ مقامات ہیں۔
سیاحت کے سیزن کے دوران سیاحوں کے علاوہ پیشہ ور گداگر بھی ان علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جو گروپ کی شکل میں پیسے مانگنے کے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔
ان بھکاریوں میں بیشتر پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھتے ہیں جو ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ان ٹھنڈے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ 
شمالی علاقوں میں گداگروں کے ڈیرے 
خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں سب سے زیادہ پیشہ ور بھکاری پائے جاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق سوات اور کالام میں گرمی گزارنے کے لیے پنجاب سے تعلق رکھنے والے بھکاری پہنچ جاتے ہیں۔ ان بھکاریوں میں مردوں کے علاوہ خواتین، بوڑھے اور بچے بھی ہوتے ہیں۔
گداگروں کے خلاف انتظامیہ متحرک
سوات کی ضلعی انتظامیہ نے سیاحوں کی شکایات اور گداگروں کی بھرمار سے تنگ آ کر گزشتہ ماہ جون میں ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جس میں پیشہ ور گداگروں کو عوامی مقامات سے اٹھایا گیا اور پوچھ گچھ کے بعد انہیں ضلعے سے نکال دیا گیا۔ پیشہ ور افراد کی شناخت درج کرنے کے بعد انہیں دوبارہ نہ آنے کی تنبیہہ کر کے بھجوا دیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق مختلف جگہوں میں یہ بھکاری روپ بدل بدل کر پیسے مانگتے ہیں تاہم پھر بھی پولیس کی مدد سے متعدد گروپوں کی نشاندہی کر کے انہیں ضلع بدر کر دیا گیا۔
گداگری کے خلاف دفعہ 144 نافذ
ضلع لوئر چترال میں پیشہ ور گداگروں کی موجودگی کی اطلاع پر انتظامیہ نے دفعہ 144 کے تحت پیسے مانگنے پر پابندی لگا دی ہے۔
ڈپٹی کمشنر چترال کے مطابق عوامی مقامات میں پیسے مانگنے کے علاوہ چندہ مانگنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور جو خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف سیکشن 144 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب چترال کی انتظامیہ نے بھکاریوں کو ضلع بدر کرنے کے لیے پیشہ ور بھکاریوں کو حراست میں بھی لیا ہے۔

گداگروں کے خلاف آپریشن کے بعد عوام کی پریشانی بھی کافی حد تک کم ہوئی ہے (فوٹو: ضلعی انتظامیہ، چترال)

اسسٹنٹ کمشنر عاطف جالب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چترال کے بازار سے بھکاری پکڑ کر ضلع بدر کر دیے ہیں جن میں خانیوال اور لوئر دیر کے رہائشی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ گداگروں کے خلاف آپریشن جاری ہے جہاں ہمیں نظر آئے، ان کو وارننگ دے کر ضلعے سے نکالیں گے۔‘
دوسری جانب ان پیشہ ور افراد کی دوبارہ واپسی کے خدشے کے پیش نظر انٹری پوائنٹس پر پولیس ہر گاڑی کی تلاشی لیتی ہے۔
اسٹنٹ کمشنر عاطف جالب کا کہنا تھا کہ ’پکڑے جانے والے تمام افراد پیشہ ور تھے جو یہاں آ کر جھوٹی دکھ بھری کہانیاں سنا کر سیاحوں اور عوام سے پیسے لیتے ہیں۔‘
گداگر یومیہ کتنا کما لیتا ہے؟
اے سی چترال عاطف جالب کے مطابق ’یہ گداگر ماہانہ 30 سے 35ہزار روپے کما لیتے ہیں ’ہم نے ان کی جیب سے 1200 یا 1500 روپے برآمد کیے۔ چترال جیسے علاقے میں یومیہ اتنے پیسے اکھٹا کرنا بہت بڑی بات ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گداگروں کے خلاف آپریشن کے بعد عوام کی پریشانی بھی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ 
سیاحتی مقامات میں گداگر رہتے کہاں ہیں؟
دوردراز علاقوں سے آئے گداگر دو سے تین ماہ تک ان مقامات میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں وہ رہائش کے لیے کرایے پر کمرے لے لیتے ہیں۔
محکمہ سوشل ویلفیئر کے ایک افسر نے بتایا کہ پیشہ ور گداگر اکیلے نہیں پوری فیملی کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔

دوردراز علاقوں سے آئے گداگر دو سے تین ماہ تک ان مقامات میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں (فوٹو: ضلعی انتظامیہ چترال)

’یہ لوگ جہاں جاتے ہیں، کرایے پر مکان یا کمرے حاصل کرتے ہیں۔ ان کی یومیہ آمدن دو سے تین ہزار تک بن جاتی ہے جو کہ صرف ایک بھکاری کی کمائی ہے۔ سیاحتی مقامات میں سیزن کی کمائی کرنے کے بعد یہ پیشہ ور لوگ شہری علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔‘
 سیاحتی مقامات گلیات اور ناران میں بھی بھکاریوں کا گروپ پیسے بٹورنے کے لیے موجود ہیں۔
سیاحوں کے مطابق بھکاریوں میں چھوٹے بچے اور خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے جو کہ بھیک مانگ مانگ کر لوگوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔

شیئر: