جب ’اصلی وزیراعظم‘ بننے کی کوشش میں پہلی نواز حکومت ختم ہو گئی
جب ’اصلی وزیراعظم‘ بننے کی کوشش میں پہلی نواز حکومت ختم ہو گئی
بدھ 17 جولائی 2024 8:05
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
یہ اپریل 1993 کی سرد اور طوفانی دوپہر تھی جب وزیراعطم نواز شریف کچھ وزراء کے ساتھ سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کے بعد ڈھاکہ سے لاہور روانگی کے لیے بے چین تھے۔ پائلٹ نے انھیں بتایا کہ موسم خراب ہے اور ایسے میں روانگی کسی خطرے سے خالی نہیں۔
تاہم نواز شریف کسی صورت بھی مزید وقت کے لیے بیرون ملک رکنا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے پائلٹ سے روانگی کا کہا۔ ان کی خفگی کی بنیادی وجہ صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ جاری سیاسی کشیدگی تھی۔
یہ کشیدگی نواز شریف کے پہلی بار وزیراعظم بننے کے کچھ ہی عرصے بعد شروع ہوئی جب بظاہر فوج کی حمایت سے اقتدار میں آنے والے نواز شریف نے بااختیار وزیراعظم بننے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔
لیکن کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب 8 جنوری کو آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی وفات کے بعد صدر مملکت نے اپنی مرضی سے جنرل عبدالوحید کاکڑ، جو اس وقت کور کمانڈر کوئٹہ تھے، کو آرمی چیف تعینات کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ نواز شریف کی جانب سے آٹھویں ترمیم کے خاتمے اور صدر مملکت کے اختیار کم کرنے کے مؤقف نے بھی دونوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی تھی۔
’ایکسٹینشن ہی فساد کی جڑ ہے‘
1990 کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی اور نواز شریف کے پہلی بار وزیراعظم بننے کے پیچھے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں سیاسی تاریخ واضح اشارے دیتی ہے کہ اس کا مقصد غلام اسحاق خان، جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے سویلین سربراہ سمجھے جاتے تھے، انھیں دوسری مرتبہ صدر منتخب کرانا ہے۔ تاہم نواز شریف کے بدلے ہوئے مؤقف نے انھیں خاصا پریشان کر دیا تھا۔
اس زمانے کے معروف صحافی مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان اختلافات پیپلز پارٹی کے ناکام لانگ مارچ کے بعد شروع ہوئے۔ شنید یہ ہے کہ اس لانگ مارچ کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو آنکھ ماری تھی جس کے بارے میں نواز شریف کوبھی شک تھا۔ جس کے بعد نواز شریف نے پارلیمنٹ میں آٹھویں ترمیم کے خاتمے اور غلام اسحاق خان کو دوبارہ صدر نہ بنانے کا عندیہ دے دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ایکسٹینشن فساد کی جڑ ہے۔ چاہے کسی فوجی سربراہ کی ہو یا سویلین سربراہ کی۔ ضیاءالحق اور جونیجو کے درمیان تنازع بھی ایکسٹینشن کا تھا، مشرف اور بے نظیر کی ڈیل کی بنیاد بھی توسیع کا وعدہ تھا جبکہ نواز شریف اور راحیل شریف کے اختلافات کی وجہ بھی توسیع ہی تھی۔‘
’باس بننے کی کوشش نواز شریف کو راس نہ آئی‘
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اپنی کتاب ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی ان پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ نواز شریف ضیاءالحق دور میں سیاسی طور پر پلے بڑھے اور انھیں فوج کے کئی اعلیٰ افسران کا اعتماد حاصل تھا اور وہ ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے ساتھ ہی آگے بڑھ رہے تھے لیکن کہیں نہ کہیں رکاوٹیں موجود تھیں جس وجہ سے ابتدا سے نواز شریف اور فوج کے درمیان اختلافات ہونا شروع ہوگئے تھے۔‘
وہ ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں کہ ’نواز شریف نے جب غلام اسحاق خان کو دوبارہ صدر نہ بنانے کا واضح اعلان کرتے ہوئے ان کی انتخابی مہم روک دی تو غلام اسحاق خان کو لگتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے فوج اور سول بیوروکریسی میں اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی آٹھویں ترمیم ختم کرنے کے عزائم کا راستہ روکنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔‘
مشاہد حسین کے مطابق ’اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ نواز شریف ہمارا بندہ ہے اور ہم ہی اسے لے کر آئے ہیں۔ اس کی کیا جرات کہ وہ صدر کو دوسری مدت کے لیے منتخب کرانے کے وعدے سے پھرے اس لیے بہتر ہے کہ اسے نکال دیا جائے۔ اسی دوران بے نظیر بھٹو اور غلام اسحاق خان کے درمیان بیک چینل رابطے بھی شروع ہو گئے۔‘
مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’1990 میں نواز شریف یقینی طور پر فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے، لیکن جب وہ وزیراعظم بن گئے تو انھوں نے وزیراعظم بننے اور آئین میں درج وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف ان کی مدد سے پاور میں تو آگئے، لیکن جب انھوں نے کہا کہ میں باس ہوں تو پھڈا شروع ہوگیا۔‘
’ڈکٹیشن نہیں لوں گا کے بیانیے نے نواز شریف کو سرکاری سے عوامی لیڈر بنا دیا‘
ڈھاکہ سے واپسی کی طوفانی پرواز کی پہلی سیٹ پر بیٹھے وزیراعظم نواز شریف نے طیارے میں سوار صحافی مشاہد حسین کو بلایا اور ان سے ملکی سیاسی حالات کے بارے میں گپ شپ لگائی۔
مشاہد حسین نے مطابق انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ ’آپ اقتدار کی یہ جنگ ہار چکے ہیں کیونکہ آپ کے سامنے محلاتی سیاست کے بڑے بڑے نام ہیں جن میں غلام اسحاق خان، شریف الدین پیرزادہ، جلال حیدر اور روئیداد خان شامل ہیں۔ آپ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے بہتر ہے کہ آپ عوام میں جائیں۔‘
’14 اپریل کو میری نواز شریف سے ایک اور ملاقات اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہوئی تو وہ مجھے اپنے ساتھ وزیراعظم ہاؤس لے گئے جہاں دیگر وزراء بھی موجود تھے، کیونکہ اسی دن نواز شریف کی صدر سے فیصلہ کن ملاقات ہونا تھی۔ ان میں کچھ کی رائے تھی کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیں اور کچھ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہہ رہے تھے۔ نواز شریف نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ میاں صاحب آپ برطرف ہوں اس سے آپ کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ آپ قوم سے خطاب کریں اور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھ دیں۔‘
جس کے بعد نواز شریف نے 17 اپریل کو قوم سے خطاب کیا اور غلام اسحاق خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔‘ اس سے اگلے ہی دن غلام اسحاق خان نے انھیں برطرف کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی۔
مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد میں نے نواز شریف کو مبارکباد دی کہ آپ عوامی لیڈر بن گئے ہیں، اس لیے اب آپ عوام میں جائیں۔ نواز شریف نے میرے مشورے پر راولپنڈی سے لاہور تک ٹرین مارچ کا اعلان کیا۔ نواز شریف کے اصرار پر میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ جب ہم گوجر خان پہنچے تو عوام بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر شیخ رشید رو پڑے۔ نواز شریف بھی جذباتی ہوگئے۔
حکومت بحالی کے باوجود صدر اور وزیراعظم کے اختلافات ختم نہ ہو سکے
غلام اسحاق خان کی جانب سے حکومت کی برطرفی کو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ کی سربراہی اُس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کر رہے تھے۔ انہوں نے دس ایک کے تناسب سے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی، لیکن ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر نہ صرف نواز شریف بلکہ صدر غلام اسحاق خان بھی مستعفی ہوگئے۔
اس ڈیڑھ مہینے میں وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان بھی تناؤ دیکھنے کو ملا۔ تاہم پے در پے ہونے والی ملاقاتوں کے باوجود تنازع حل نہ ہوا تو صدر اور وزیراعظم دونوں کو مستعفی ہو کر گھر جانا پڑا۔ اسے پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں ’کاکڑ فارمولہ‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
کاکڑ فارمولہ کیا تھا؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اپنی کتاب ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی ان پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب صدر اور وزیراعظم کے درمیان تناؤ حد سے بڑھا تو فوج نے دونوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ نواز شریف نے مذاکرات میں سخت مؤقف اپنایا اور غلام اسحاق خان کو صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ جوں جوں مذاکرات آگے بڑھے تو نواز شریف نے مستعفیٰ ہونے پر رضا مندی ظاہر کر دی، لیکن اس کے لیے بھی انھوں نے صدر کے استعفے اور خود کو بطور نگراں وزیراعظم رہنے کا مطالبہ کیا۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’صدر نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ وہ نواز شریف کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے اور اپوزیشن کے غیرجانبدار نگراں وزیراعظم کے مطالبے کو مانتے ہوئے نئے وزیراعطم سے حلف لینے کے بعد مستعفی ہو جائیں گے۔ فوجی قیادت نے ان کی تجویز کو مناسب جانا اور نواز شریف کو اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔‘
یوں 18 جولائی 1993 کو نواز شریف نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھجوائی اور بعد ازاں غلام اسحاق خان مستعفی ہو گئے۔
مشاہد حسین سید کے مطابق اس وقت نواز شریف کے عہدے کی مدت میں تین سال جبکہ غلام اسحاق خان کے عہدے کی میعاد میں صرف تین ماہ باقی تھے۔ نواز شریف نے بعد ازاں استعفیٰ دینے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دیا تھا۔
مشاہد حسین سید کے مطابق ’جب دو لوگوں کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہوں تو فوج کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دونوں کو گھر بھیج دیتی ہے۔ 1993 میں بھی بالآخر یہی ہوا تھا کہ صدر اور وزیراعظم کو اپنی ضد اور انا کی وجہ سے گھر جانا پڑا۔ اس تنازع کا بہتر حل نکلتا اور دونوں فریق لچک دکھاتے تو اب پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔‘