نواز شریف کی خاموشی، حکومت سے مایوسی یا سیاسی کنارہ کشی؟
نواز شریف کی خاموشی، حکومت سے مایوسی یا سیاسی کنارہ کشی؟
جمعرات 27 جون 2024 5:29
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سلمان غنی کے مطابق ’شہباز شریف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوئی اور نواز شریف اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو چار سالہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے تو ان کے تیور اور لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ایک فاتح اور چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے وطن واپس لوٹے ہیں۔
ان کی جماعت نے ’قوم کو نواز دو‘ کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی مگر جب الیکشن کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو وہ توقعات کے برعکس تھے، جس کے بعد نواز شریف نے خاموشی اختیار کر لی۔
وہ اگرچہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں مگر وفاقی حکومت کے معاملات میں ان کا عمل دخل بظاہر زیادہ نہیں ہے۔
نواز شریف نے 28 مئی کو ایک بار پھر مسلم لیگ ن کا صدر منتخب ہونے کے بعد خطاب کیا لیکن اس میں بھی وفاقی حکومت سے متعلق کوئی اشارہ نہیں تھا، بلکہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا تذکرہ ایک بار پھر اسی شدومد کے ساتھ کیا جیسے وہ انتخابی مہم یا اس پہلے کے اپنے خطابات میں کیا کرتے تھے۔
اس کے اگلے ہی دن انہوں نے وفاقی حکومت کے بجٹ پر جاتی عمرہ میں ایک اجلاس طلب کیا۔ پورا دن جاری رہنے والے اس اجلاس کے بعد یہ تاثر ابھرا تھا کہ نواز شریف سپر وزیراعظم بننے جا رہے ہیں تاہم اس اجلاس کے بعد وہ ایک بار پھر خاموش ہوگئے۔
نواز شریف کی یہ خاموشی کسی کو محسوس نہ ہوتی لیکن حالیہ بجٹ اجلاس میں ان کی عدم شرکت بلکہ ایوان سے رخصت کی درخواست نے معاملے کی سنگینی بڑھا دی ہے۔
’ںواز شریف اپنا بیانیہ کھو چکے ہیں‘
اب ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف بجٹ اقدامات سے خوش نہیں ہیں تو دوسری طرف یہ بات نظر انداز کی جا رہی ہے کہ ان کی جماعت حکومت میں ہے، اور وہ اگر اپنی جماعت کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ اسے بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نواز شریف کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف سمیت جن دیگر پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے، نواز شریف ذاتی طور پر ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے بھائی وزیراعظم اور بیٹی وزیراعلٰی پنجاب ہیں، اس لیے وہ ایوان میں آ کر ان پالیسیوں کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔ اس معاملے میں ان کے خاندان کے بہت سے سیاسی مفادات پنہاں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنا ہائی مارل گراؤنڈ یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کھو چکے ہیں، اور وطن واپسی سے لے کر انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی صورت حال تک وہ بتدریج اپنا بیانیہ کھوتے ہی چلے گئے ہیں۔ اس لیے اب وہ درمیانی راستہ نکالتے ہوئے جاتی عمرہ تک محدود ہیں اور اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ انہیں ان کا ہائی مارل گراؤنڈ واپس ملے تو وہ متحرک ہوں۔‘
’نواز شریف کا تیسرا بڑا چیلنج ان کی عمر ہے جبکہ انہوں نے اس دوران بہت سی ذاتی اور جذباتی الجھنوں کا سامنا کیا ہے جن کی وجہ سے بھی وہ اب سیاست سے نیم کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘
تاہم اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ پنجاب حکومت کی پالیسیوں میں نواز شریف کا واضح عمل دخل نظر آتا ہے اور وہ مریم نواز کے ساتھ کئی اجلاسوں کی صدارت بھی کر چکے ہیں۔
’عمر کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘
تجزیہ کار سلمان غنی کا ماننا ہے کہ ’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاستدان کے سیاسی کردار کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی پاکستان کی سیاست کا حصہ ہیں، اسی طرح نواز شریف اپنی جماعت کے اہم ترین سیاسی رہنما ہیں اور وطن عزیز میں ان کا ووٹ بینک سردست موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ان کی جماعت اور کچھ اور حلقوں کی ضرورت کے باعث نواز شریف وطن واپس آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بھی سچ ہے کہ نتائج ان کی توقعات کے مطابق نہیں تھے مگر اس کے باوجود نواز شریف ایک سیاسی حقیقت ہیں تاہم، ان کی عمر کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
ایک سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف تین مرتبہ اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور ان کی حکومتوں نے ڈیلیور کیا ہے لیکن شہباز شریف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوئی اور نواز شریف اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔‘
’ایک اجلاس میں انہوں نے برملا کہا تھا کہ مجھے یہ نہ بتائیں کہ آئی ایم ایف کیا کہتا ہے بلکہ مجھے یہ بتائیں کہ عوام کو ریلیف کیسے دینا ہے؟ اس حوالے سے نواز شریف کو مطمئن نہیں کیا گیا جس وجہ سے وہ بجٹ اجلاس کا حصہ نہیں بنے۔‘
ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا مقصد مریم نواز کو عملی سیاست میں اتارنا تھا اور اب چوں کہ مریم نواز نہ صرف وزیراعلٰی پنجاب بن چکی ہیں اور ابتدائی چار ماہ کی حکومت میں ان کی کارکردگی کو دیگر وزرائے اعلیٰ سے بہتر قرار دیا جا رہا ہے، اس لیے نواز شریف اب مطمئن ہوکر غیراعلانیہ طور پر سیاست سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی تلاش میں ہیں اور جب بھی انہیں ایسا کوئی موقع میسر آئے گا وہ متحرک ہو جائیں گے۔‘
دوسری جانب سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف اپنی جماعت پر فوکس کیے ہوئے ہیں اور ممکن ہے، وہ جلد کسی نئے اور اہم سیاسی کردار میں نظر آ جائیں۔‘