بلوچستان کی ’خونی شاہراہ‘ جس پر سفر سے پہلے لوگ گھر سے وصیت کر کے نکلتے ہیں
بلوچستان کی ’خونی شاہراہ‘ جس پر سفر سے پہلے لوگ گھر سے وصیت کر کے نکلتے ہیں
بدھ 17 جولائی 2024 9:34
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
خونی شاہراہ پر حادثات کے خلاف احتجاج بھی ہو چکے ہیں۔ فوٹو: بلوچستان سول سوسائٹی
29 جنوری 2023 کو بلوچستان کے ضلع پشین سے کراچی جانے والی مسافر کوچ لسبیلہ میں ایک موڑ کاٹتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ کوچ میں سوار تین افراد کے علاوہ باقی تمام 41 مسافر جھلس کر ہلاک ہوگئے۔
کوئٹہ کے رہائشی قدرت اللہ نے تین بہن بھائی اور والدہ کو بھی اس حادثے میں کھویا جبکہ ان کے دوبھائی بال بال بچ گئے۔ حادثے کے ڈیڑھ سال بعد بھی ان کا خاندان اس صدمے سے باہر نکل نہیں پایا۔
قدرت اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان کا اب ہر فرد بذریعہ سڑک کراچی جانے سے خوفزدہ رہتا ہے کیونکہ اس کے لیے ’خونی شاہراہ ‘سے گزرنا پڑتا ہے جس پر آئے روز جان لیوا حادثات پیش آتے ہیں۔
قدرت اللہ کے خاندان کے افراد کی طرح بلوچستان کے بیشتر لوگ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ پر سفر کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس پر حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ آئے روز جان لیوا حادثات کے سبب اس کو ’خونی سڑک‘ بھی کہا جاتا ہے۔
بلوچستان کے میڈیکل اینڈ ایمرجنسی رسپانس سینٹرز (ایم ای آر سی) 1122 کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں رپورٹ ہونے والا ہر دوسرا حادثہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پیش آیا۔
اس شاہراہ کو این 25 ہائی وے کہا جاتا ہے۔ یہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے شہر چمن سے شروع ہوکر قلعہ عبداللہ، پشین، کوئٹہ، مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، لسبیلہ اور حب کے اضلاع سے گزر کر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی تک جاتی ہے۔ یہ بلوچستان کی سب سے مصروف ترین شاہراہ سمجھی جاتی ہے ۔
ٹریفک کے دباؤ، سنگل سڑک ہونے، خطرناک موڑوں، مسافر بسوں میں ایرانی تیل سمیت آتش گیر مواد کی سمگلنگ، ڈرائیوروں کی غفلت اور تیز رفتاری سمیت ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے سبب حادثات کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
چھ ماہ میں 4 ہزار سے زائد حادثات میں 104 افراد ہلاک
میڈیکل ایمرجنسی اینڈ رسپانس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 سے جون 2024 تک صوبے کی 6 شاہراہوں پر 10 ہزار 299 حادثات میں 13 ہزار613 افراد زخمی اور 218 افراد کی اموات ہوئی ہیں۔
ان میں سے تقریباً نصف حادثات اور اموات کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ہوئیں۔ اس شاہراہ پر جنوری سے جون تک 4 ہزار 897 حادثات میں 104 افراد ہلاک اور 4 ہزار744 افراد زخمی ہوئے۔ اس طرح کوئٹہ کراچی شاہراہ پر روزانہ اوسطاً 13 او رماہانہ 400 سے زائد حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔
نجیب یوسف زہری کے ساتھ بھی کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کار حادثہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ ان حادثات کی روک تھام کے لیے آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس خونی شاہراہ پر سفر کرنے سے پہلے لوگ وصیت کر کے گھر سے نکلتے ہیں۔‘
اس شاہراہ پر اکتوبر 2019 سے اپریل2021 کے درمیان پیش آنے والے 9 ہزار حادثات کا جائزہ لیا گیا جس سے پتا چلا کہ ان حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں کی تعمیر میں انجینیئرنگ کی غلطیاں ہیں اور زیادہ تر خطرناک موڑوں پر پیش آتے ہیں۔
ایم ای آر سی کی رپورٹ میں ایسے تقریباً 40 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 26 فیصد حادثات زیرو پوائنٹ سے گڈانی موڑ تک، 20 فیصد حادثات جیوا کراس سے پیر عمر تک، 16 فیصد حادثات کھڈ کوچہ سے لکپاس کے درمیان پیش آئے۔
محمد اصغرکا کہنا ہے کہ چھٹیوں کے دنوں اور تہواروں کے موقع پر حادثات کی شرح بڑ ھ جاتی ہے۔ 2023 میں 24 فیصد حادثات اپریل، اگست اور ستمبر یعنی صرف 3 ماہ میں پیش آئے۔
دہشت گرد حملوں سے کئی زیادہ اموات کار حادثات میں
اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں دہشت گردی سے کئی گنا زیادہ اموات سڑک حادثات میں ہوتی ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق بلوچستان میں 2023 میں 170 حملوں میں ڈیڑھ سو عام شہریوں سمیت 285 ہلاکتیں ہوئیں۔
بلوچستان میں موٹروے اینڈ ہائی وے پولیس کے سابق ڈی آئی جی علی شیر جھکرانی نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ بلوچستان میں سالانہ 6 سے 8 ہزار افراد سڑک حادثات کا شکار ہوکر لقمہ اجل بنتے ہیں۔
نجیب یوسف زہری اپنی تنظیم بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی (بی وائے سی ایس) کے تحت رضا کاروں کی مدد سے سڑک حادثات کے اعداد و شمار بھی مرتب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں سڑک حادثات اور اس میں اموات کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جو رپورٹ ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر حادثات رپورٹ نہیں ہوتے اور ریسکیو 1122 کی ہر جگہ موجودگی نہیں لہٰذا ہر حادثے پر نہیں پہنچ سکتی۔
بلوچستان حکومت نے روڈ حادثات میں زخمی ہونے والوں کے فوری علاج کے لیے ایم ای آر سی 1122 کے نام سے 2019 میں ادارہ بنایا۔
اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل محمد اصغر کا کہنا ہے کہ ایم ای آر سی 1122 کے بننے سے پہلے تک سڑک حادثات کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں تھے۔ 2019 سے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے تو پتا چلا کہ صورتحال اس سے زیادہ تشویشناک ہے جتنی بتائی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی 8 بڑی شاہراہیں ساڑھے چار ہزار کلومیٹر طویل ہیں اور ان پر حادثات کا شکار ہونے والوں کے علاج کے لیے صرف 18 سینٹرز کافی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فوری طبی امداد کی فراہمی کے نتیجے میں سڑکوں پر ہلاکتوں کی تعداد اور لوگوں کے معذور ہونے کی شرح میں کافی کمی آئی ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حادثات کو ہونے سے روکا جائے۔
محمد اصغر نے کہا کہ حادثات کا شکار زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں اس عمر میں اتنی بڑی تعداد میں اموات معاشرے کا بڑا نقصان ہے۔
پہاڑی، صحرائی اور میدانی علاقوں اور وسیع و عریض رقبے پر مشتمل بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے لگتی ہیں۔ نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر کے مطابق صوبے میں سڑکوں کا نیٹ ورک 45 ہزار کلومیٹر ہے، لیکن اس میں صرف پانچ ہزار کلومیٹر سڑکیں ہائی وے ہیں اور کوئی ہائی وے دو رویہ نہیں ہے۔
نجیب یوسف زہری کے مطابق ’سنگل سڑکیں اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ صوبے میں کوئی بھی سڑک دو رویہ نہیں۔ موٹرو ے کا تو نام و نشان نہیں۔‘
وفاقی حکومت نے تین سال قبل کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دو مرحلوں میں دو رویہ بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 2023 میں دورہ کوئٹہ کے موقع پر اس شاہراہ کے کوئٹہ سے خضدار تک حصے کو دو رویہ کرنے کے منصوبے کی تعمیر تین ماہ کے اندر مکمل کرنے کا اعلان کیا مگر ایک سال گزرنے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
نجیب یوسف زہری کے بقول کوئٹہ سے پھل اور سبزیاں کراچی لے جانے والے ڈرائیوروں کو کم وقت میں کراچی کی سبزی منڈی تک پہنچنے پر انعام ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ انتہائی تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
’چلتے پھرتے بم ہیں جو فوری آگ پکڑتے ہیں‘
موٹر وے پولیس کے ایک سابق افسر عبدالوحید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہیں ہے اور گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ بھی نہیں ہوتی، جبکہ سروس روڈ یا متبادل سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل، گدھا گاڑی اور ریڑھیوں والے بھی یہ شاہراہ استعمال کرتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومت نے چند سال پہلے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر چلنے والی بسوں میں ٹریکر اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرائے مگر ایک سال بعد ہی اس پر عملدرآمد رک گیا۔ بس مالکان بسوں میں سمگلنگ کے ڈر کی وجہ سے کیمرے نصب نہیں کراتے۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ پر اب تک گاڑیوں میں آگ لگنے سے درجنوں حادثات پیش آچکے ہیں۔
نجیب یوسف زہری کا کہنا ہے کہ مسافر بسوں میں ایرانی ڈیزل، پٹرول اور دیگر آتش گیر مواد لے جایا جاتا ہے جبکہ بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگ موٹر سائیکلوں اور پک اپ گاڑیوں میں ایرانی تیل غیر قانونی طور پر دوسرے صوبے لے جاتے ہیں۔
’یہ چلتے پھرتے بم ہیں جو حادثے کے بعد فوری طور پر آگ پکڑ لیتے ہیں۔‘
جنوری 2023 کے ٹریفک حادثے میں اپنے خاندان کے چار افراد کو کھونے والے قدرت اللہ کا کہنا ہے کہ ’اس حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے ان کے بھائی عبدالوحید نے بتایا تھا کہ کوچ میں نہ صرف ایرانی تیل لوڈ تھا بلکہ سردی سے بچنے کے لیے ڈرائیور نے کوچ کے اندر اپنے پاس گیس سلنڈر بھی جلا رکھا تھا اور وہ انتہائی تیز رفتاری سے کوچ چلا رہا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب کوچ موڑ کاٹتے ہوئے ڈرائیورسے بے قابو ہو کر ایک پل سے نیچے گری تو اس کے بعد اس میں تیل ہونے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔
قدرت اللہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد حاجی شریف اللہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے بس کمپنی کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہائی کورٹ میں کیس بھی دائر کیا ہے مگر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔