پاکستان کے کئی علاقے موبائل اور انٹرنیٹ سروسز سے محروم کیوں ہیں؟
پاکستان کے کئی علاقے موبائل اور انٹرنیٹ سروسز سے محروم کیوں ہیں؟
بدھ 19 جون 2024 7:25
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق کسی علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز فراہم کرنے کی پابند ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی کُل آبادی اور رقبے کا ایک حصہ اب بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی سہولت سے محروم ہے۔ شمالی پنجاب، اندرون سندھ، پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کے شہریوں کو میعاری ٹیلی کام سروسز میسر نہیں ہیں۔
تاہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی 75 سے 77 فیصد آبادی کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی سہولت میسر ہے جبکہ سنہ 2028 تک ملک کی 90 فیصد آبادی کو یہ سہولت میسر ہو سکے گی۔
شمالی وزیرستان سمیت بلوچستان کے پانچ اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز دستیاب نہیں
پی ٹی اے نے صوبہ بلوچستان میں انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کی ہدایت پر اس وقت ضلع شمالی وزیرستان اور بلوچستان کے پانچ اضلاع کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز بند کی گئی ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق کسی علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز فراہم کرنے کی پابند ہے۔
بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا 45 فیصد حصہ ہے اور اس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ صوبے کے اہم بڑے شہروں میں تو موبائل اور انٹرنیٹ سروسز دستیاب ہیں تاہم کم آبادی والے علاقوں میں یونیورسل فنڈ سروس (یو ایس ایف) ٹیلی کام کی بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہے۔
پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ عامر شہزاد نے پی ٹی اے کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ذریعے اُردو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو اسی بنیاد پر لائسنس جاری کرتا ہے کہ وہ ٹیلی کام سروسز پر وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کریں گی۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیوں کے درمیان سال 2021 اور 2022 کے لائسنس پر طے ٹی او آرز کے مطابق ٹیلی کام آپریٹرز ہر سال تین فیصد نئی آبادی کو موبائل فون سروسز کے دائرے میں لائیں گے، ہعنی ہر سال ٹیلی کام کمپنیاں تین فیصد مزید آبادی کو ٹارگٹ کریں گی۔
عامر شہزاد نے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مطابق ہر برس تین فیصد نئی آبادی کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ جن میں شہری اور دیہی علاقوں کی آبادیاں شامل ہوتی ہیں۔ پی ٹی اے کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً 77 فیصد آبادی کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز میسر ہیں۔
حکومت پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق ہر سال ملک کی دو فیصد آبادی بڑھ رہی ہے جبکہ ایک فیصد تک نئے گھروں کی تعمیر بھی ہو رہی ہے۔ پی ٹی اے کے حساب سے آئندہ تین سالوں میں یعنی سنہ 2028 تک پاکستان کی 90 فیصد آبادی کو موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز میسر ہوں گی۔
آبادی کے تناسب سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز مہیا کی جاتی ہیں: پی ٹی اے
پاکستان کے مختلف علاقوں میں میسر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے پی ٹی اے کی ترجمان ملاحت عبید نے بتایا کہ جب کسی علاقے میں یہ سروسز فراہم کرنی ہوں تو ٹیلی کام آپریٹرز پہلے وہاں کی آبادی اور دیگر تکنیکی وسائل کو مدنظر رکھتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا پی ٹی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو مخصوص علاقوں میں ٹاورز لگانے کی ہدایت کرتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کسی آپریٹر کو کسی مخصوص علاقے میں ٹاور لگانے کی ہدایت نہیں کرتا۔
’ٹیلی کام کمپنیاں اپنا بزنس ماڈل دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ انہوں نے کس جگہ ٹیلی کام سروسز فراہم کرنی ہیں، یعنی اگر کسی قصبے میں آبادی کا تناسب کم ہے تو شاید وہاں آپریٹرز ٹاور نہ لگائیں کیونکہ ہمارے معاہدے میں کمپینوں کی بزنس پروٹیکشن بھی شامل ہے۔‘
پاکستان کے مختلف علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی پر بات کرتے ہوئے پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ عامر شہزاد نے کہا کہ مجموعی طور پر اس وقت ملک بھر میں ٹیلی کام سروسز میسر ہیں۔ تاہم ٹیلی کام آپریٹرز آبادی والے علاقوں میں اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں یعنی جہاں آبادی کا تناسب صحیح ہو گا وہیں آپریٹرز کام کریں گے۔
صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر دور دراز کے علاقوں میں دستیاب ٹیلی کام سروسز کی صورتحال پر اُن کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے 80 فیصد رقبے میں ٹیلی کام سروسز کے لیے ٹاورز لگانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہاں آبادی کا تناسب بہت کم ہے۔ اسی لیے ٹیلی کام کمپنیاں مخصوص آبادی کو ٹارگٹ کر کے اپنی سروسز مہیا کرتی ہیں۔‘
’بلوچستان کے چند شہروں کے ساتھ ساتھ دور دراز کے علاقوں گوادر تربت اور آواران میں بھی ٹیلی کام سروسز میسر ہیں لیکن انہی علاقوں کے ساتھ اگر کسی ایریا میں آبادی بہت کم ہے تو وہاں شاہد یہ سروسز میسر نہ ہوں۔‘
’کم شرح خواندگی بھی ڈیجیٹل سروسز کی فراہمی میں ایک رکاوٹ‘
ٹیلی کام سروسز پر کام کرنے والے ایکسپرٹ ملک عدیل الرحمان نے ٹیلی کام سروسز میسر نہ ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے علاقوں کے جغرافیہ کی وجہ سے بھی ٹیلی کام سروسز کی فراہمی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں ٹیلی کام آپریٹرز کو ملنے والے کم مالی فائدے کا تخمینہ بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان کے ریموٹ علاقوں میں بجلی کی عدم دستیابی کے سبب ٹیلی کام کمپنیوں اپنی سروسز فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے علاقوں میں کم شرح خواندگی بھی ڈیجیٹل سروسز کی فراہمی میں ایک رکاوٹ ہے۔ جب تک لوگوں کو ٹیلی کام سروسز کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو گا وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے۔‘
’ 4 جی کی سروسز بھی معیاری نہیں‘
ڈیجیٹل رائٹس کے ایکسپرٹ تنویر نانڈلا کے مطابق ملک کی پوری آباری یا سارے علاقوں میں ٹیلی کام سروسز کی عدم فراہمی حکومت کی بہت بڑی نااہلی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، اور ان علاقوں میں ہی یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔
تنویر نانڈلا کے مطابق 2024 تک ٹیلی کام کمپنیوں نے ملک بھر میں جدید انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز فراہم کرنا تھی تاہم ابھی بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان سہولیات سے محروم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’شمالی پنجاب، اندرون سندھ، کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا میں ٹیلی کام سروسز کا کوئی معیار نہیں۔ وہاں موجود طلبا بڑے شہروں میں آ کر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ پاتے ہیں۔‘
تنویر نانڈلا کے خیال میں حکومت کو ملک بھر میں ٹیلی کام سروسز کی فراہمی سمیت دستیاب سہولیات کو بھی معیاری بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں اس وقت 4 جی کی سروسز بھی معیاری نہیں ہیں۔