Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواجہ ناظم الدین: پاکستان کے پہلے وزیراعظم جو برطرف ہوئے

خواجہ ناظم الدین 22 اکتوبر 1964 کو فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے دوران ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔ (فوٹو: دی پروفائل ڈاٹ کام)
پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سیاسی ہلچل ہے اور حکومت کے چل چلاؤ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف حال ہی میں دیے گئے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے باعث پارلیمنٹ میں وزیراعظم شہباز شریف کی جماعت مسلم لیگ نواز کے اراکین کی تعداد کم ہونے کا امکان ہے وہیں کچھ تجزیہ کار اس حکومت کے خاتمے کی تاریخیں بھی دے رہے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک بیشتر حکومتوں کو اسی طرح کے حالات کا سامنا رہا ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان کے بعد بننے والے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، جن کی آج 130 ویں سالگرہ ہے، بھی انہی حالات کا شکار رہے اور ملک بننے کے چند سال بعد ہی پہلے برطرف ہونے والے وزیراعظم بن گئے۔
19 جولائی 1894 کو ڈھاکہ کے ایک نواب گھرانے میں پیدا ہونے والے اور علی گڑھ کالج اور کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل خواجہ ناظم الدین تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب 11 ستمبر 1948 کو جںاح کی وفات ہوئی تو اس کے بعد انہیں گورنر جنرل کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ اور وہ 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں قتل ہونے تک گورنر جنرل رہے اور اس کے اگلے ہی روز پاکستان کے دوسرے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ تاہم وہ ان دونوں عہدوں پر غیرمطمئن رہے۔
پاکستان کے معروف صحافی منیر احمد منیر نے اپنی کتاب ‘سیاسی اتار چڑھاؤ‘ میں صفحہ نمبر 97 پر سابق وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’خواجہ صاحب ایک نیک، متواضع اور خلیق آدمی تھے لیکن ان کی قوت فیصلہ بہت کمزور تھی۔‘
کہا جاتا ہے کہ جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے تو اس وقت لیاقت علی خان کی بلند پایہ شخصیت کی وجہ سے ان کا قومی امور میں کردار محدود نظر آتا تھا اور جب لیاقت علی خان کی وفات کے بعد وہ ان کی جگہ وزیراعظم بنے تو گورنر جنرل بننے والے بیوروکریٹ غلام محمد نے بیشتر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
لکھاری اختر بلوچ کے ایک مضمون میں وزیراعظم ہاؤس کے اس دور کے تین ملازمین نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار کی مرتب کردہ کتاب ’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم‘ سے لیے گئے اقتباس میں بتایا گیا ہے کہ جب غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو اس وقت وہ ایک دورے پر جانے والے تھے۔

لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ (فوٹو: دی پروفائل ڈاٹ کام)

’جب انہیں اپنی برطرفی کا علم ہوا تو انہوں نے کسی سیاسی انتقامی کارروائی کے بجائے خاموشی سے برطرفی برداشت کر لی۔
اس زمانے میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ خواجہ صاحب سے دھوکہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن پر وہ بھروسہ کرتے تھے یعنی چودھری محمد علی اور سکندر مرزا، لیکن ناظم الدین یا تو اتنے بزدل تھے یا شریف کہ انہوں نے اپنی برطرفی پر کوئی بیان تک نہ دیا۔‘
تاہم جب وہ برطرفی کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونے لگے تو افسردہ نظر آرہے تھے اور آنسو ان کی آنکھوں میں تیررہے تھے۔ البتہ انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ ’یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘
معروف صحافی حسین نقی نے اپنے ایک انٹرویو میں خواجہ ناظم الدین کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 1952 کے  آخر اور 1953 کے آغاز میں  طلبہ نے اپنے مسائل کے حل کے لیے مظاہرے کیے جس کی قیادت ڈی ایس ایف گرلز سٹوڈنٹس کانگریس اور انٹر کالجٹ باڈی کر رہی تھیں۔ 8 جنوری 1953 کو کراچی کی انتظامیہ نے طالب علموں کے جلوس پر کئی بار فائرنگ کر کے کم از کم ایک درجن طالب علموں اور شہریوں کو ہلاک اور کافی تعداد میں افراد کو زخمی کر دیا۔‘
خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم، مسٹر فضل الرحمٰن وزیرِ تعلیم، جبکہ نواب گورمانی وزیر داخلہ تھے۔ حکومت نے انتظامیہ کی فائرنگ سے لاتعلقی اور طالب علموں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ اس حادثہ سے پہلے بھی ممکن تھا، مگر پھر بھی برطانوی دورِ اقتدار کی انتظامیہ جس کی گرفت پاکستان پر اس وقت تک کافی مضبوط ہو چکی تھی، اس مسئلے کو امن و امان اور قانون کی خلاف ورزی کے تناظر میں ہی سمجھنا اور حل کرنا چاہتی تھی۔ اس تحریک نے مغربی پاکستان بھر میں طالبعلم برادری میں ایک احساسِ یگانگت پیدا کیا اور اس کی عملی کامیابی نے ڈی ایس ایف کو ایک مقبول طالبعلم تنظیم کی حیثیت دی۔‘
اس واقعے سے پہلے خواجہ ناظم الدین نے 1952 میں دورہ بنگال کے دوران ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہو گی۔ جس پر بنگالی طلبہ نے مظاہرے شروع کر دیے اور ایسے ہی ایک مظاہرے میں پولیس نے فائرنگ کر کے کئی طلبہ کو ہلاک کر دیا۔

خواجہ ناظم الدین بانی پاکستان قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ (فوٹو: دی پروفائل ڈاٹ کام)

اختر بلوچ نے ایک اور مضمون میں لکھا ہے کہ ’چونکہ خواجہ ناظم الدین کو لیاقت علی خان جیسے طاقتور وزیر اعظم کی موجودگی میں گورنر جنرل کی کم حیثیتی کا اندازہ تھا، اس لیے انہوں نے وزیر اعظم بننا پسند فرمایا۔ یہ فیصلہ غلام محمد کا اپنا نہیں تھا، بلکہ انہیں یہ عہدہ پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا تھا حالانکہ اس دور میں سردار عبدالرب اور راجہ غضنفرجیسی شخصیات اس عہدے کے لیے موزوں تھیں۔ بہرحال یہ فیصلہ ہوگیا۔ آخرکار اسی گورنر جنرل نے انہیں برطرف کردیا۔ برطرفی کے موقع پر خواجہ ناظم الدین نے جب غلام محمد سے کہا کہ جب میں گورنر جنرل تھا تو میں نے لیاقت علی خان سے ایسا رویہ روا نہیں رکھا جو آپ نے میرے ساتھ کیا۔ اس کے جواب میں غلام محمد نے کہا کہ نہ تم لیاقت علی خان ہو اور نہ ہی میں خواجہ ناظم الدین۔‘
خواجہ ناظم الدین خوش خوراکی اور مرغبانی کے لیے بھی کافی مشہور تھے۔ تاہم بنگال کے یہ نواب جنہوں نے ایک زمانے میں اپنی جمع پونجی سے مسلمانوں کا پہلا انگریزی ترجمان اخبار  ’دی سٹار آف انڈیا‘ شروع کیا، انتہائی کسمپرسی کے عالم میں یہ دنیا چھوڑ گئے۔
پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’رودادِ چمن‘ کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں کہ وہ جب سندھ کے ریونیو وزیر بنے تو خواجہ ناظم الدین ان کے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو سندھ میں غیر آباد زمین کا ایک ٹکرا دیا جائے، جہاں وہ مرغبانی کرکے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کرسکیں۔
’زمین تو میں نے دے دی مگر مرغی خانہ نہ بن سکا۔ مجبوراً دربدرخاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست یا دشمن قائداعظم کے اس قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔‘
خواجہ ناظم الدین 22 اکتوبر 1964 کو فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے دوران ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔

شیئر: