Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رنگ تغزل

- - - - -  - - - - - - - - - - - - - -  - - -                    - - - - - - - -                                  - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
بٹھائے رکھے ہیں پہرے جو تاک پر ناحق
کہ بات آئے نہ اب اْن کی ناک پر ناحق
نئے جہاں کی طلب میں کہیں دلِ ناداں
یہ خاک ڈال نہ دے اپنی خاک پر ناحق
گزر گئی شبِ خلوت دکھا کے چھب اپنی
کہ جیسے آئی تھی سورج کی دھاک پر ناحق
تمام عمر مری خاک بن سکی نہ سبو
میں رقص کرتی رہی اُس کی چاک پر ناحق
دلوں کی آگ لگائے گی سیما پھر الزام
کبھی ہوا پہ کبھی تخمِ آک پرنا حق
- - - - - -  - -
 عشرت معین سیما ۔ برلن، جرمنی
- - - - - - - - -
اداسیوں میں گھرا ہے کہ دل اکیلا ہے
شجر کی شاخ پہ خاموش اک پرندہ ہے
 ہر ایک شے میں رہے گا جنوں محبت کا
یہ سانس چلتی ہے جب تک وجود زندہ ہے
ہوائے سرد کا اس پر اثر ، نہ بارش کا
شجر کے سائے تلے ، کون آکے بیٹھا ہے
صفت خدا نے یہ بخشی ہے صرف شاعر کو
 قلم کے کوزے میں دریا سمیٹ لیتا ہے
 فلک پہ دیکھو ستارے بھی سو گئے نکہت
 اندھیری رات میں دل کا چراغ جلتا ہے
- - - - - - - - -  
نسرین نکہت ۔ راوڑ کیلا، اڑیسہ
- - -  --  - - -
کسی صورت محبت کو کبھی رسوا نہیں کرتے
یہ ایسی چیز ہے جس میں کبھی سودا نہیں کرتے
 اسے کہنا محبت میں یونہی روٹھا نہیں کرتے
 جنہیں اپنا بناتے ہیں، انہیں تنہا نہیں کرتے
بہت کچھ سوچنے میں وقت لگتا ہے ، اسے کہنا
کسی سے پیار ہوجائے تو پھر سوچا نہیں کرتے
بتادینا جو ایسے اجنبی بن کر چلے ہو تم
کوئی اپنا گنوا دو گے سنو ایسا نہیں کرتے
- - - - - - -  - -
 آئرین فرحت ۔ کراچی
- - -  - - - - -
منتظرہوں مجھے دریا کا کنارا ملتا
 آنکھ ملتی، کبھی ملنے کا اشارا ملتا
دیکھتے لوگ،تماشا بھی جنوں کا میرے
ہاتھ میرا،تو کبھی ہاتھ تمہارا ملتا
آ گرا ہوں میں ترے پیار کی کس دلدل میں
 لا بڑھا ہاتھ ،نکلنے کا سہارا ملتا
 زخم کیسا ہے کہ ہوتا ہے ہرا یہ پل پل
 ڈھونڈتا ہوں،کہیں خنجر وہ دوبارا ملتا
بعد مدت جو ملا ہے تو وہ ہنس کر بولا
عشق کے باب میں کب کوئی کنوارا ملتا
 کشتیٔ جاں مری ، پتوار سہارے کب تک
موجِ دریا، کبھی منجدھار کا دھارا ملتا
چاند کچھ بھی نہیں،مٹی کا کھلونا کوئی
 چاندنی میں بھی ہر اک عکس تمہارا ملتا
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں شہر کے ہر کونے میں
 چھپ گیا ہے کہاں معصوم وہ،پیارا ملتا
 - - - - -  - - - - - - -
  ڈاکٹر شفیق ندوی۔   ریاض
 - - - - - - - - - - - - -
* * *  *
ہماری قومی زبان اُردو
* *شہزاد اعظم *
 - - - - - -
زرخیز ہے مٹی ، اسے نم کرتے رہیں گے
 اونچا تری عظمت کا علَم کرتے رہیں گے
ہم یونہی سجائیں گے سدا بزمِ تکلُّم
 تاریخ کے اوراق رقم کرتے رہیں گے
اردو سے محبت تو وراثت میں ملی ہے
 ’’ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘

شیئر: