Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں یومِ سوگ، جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ پر پابندی

جماعت اسلامی نے حکومت کے فیصلے کو ’غیرقانونی، اختیارات سے تجاوز اور غیرآئینی‘ قرار دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیش میں حکومت نے حالیہ مظاہروں کے دوران تشدد سے ہلاکتوں کے بعد ملک بھر میں یومِ سوگ منایا جا رہا ہے جبکہ اس دوران گرفتار کیے جانے والے افراد کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے مسئلے پر احتجاج کیا جو بعد ازاں پُرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گیا جس کے دوران متعدد پولیس افسران سمیت کم از کم 206 افراد مارے گئے۔
یہ پُرتشدد احتجاج وزیراعظم حسینہ واجد کے 15سالہ دورِ اقتدار میں بدترین قرار دیا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، فوج کو تعینات کیا گیا اور ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس بند کی گئی۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بدامنی، تشدد، سرکاری عمارتوں کی تباہی اور ’دہشت گردانہ سرگرمیاں‘ کے بعد ملک بھر کی مساجد میں منگل کو پوری قوم سوگ منا رہی ہے۔
تاہم طلبہ کے ابتدائی مظاہروں کا اہتمام کرنے والے گروپ نے کہا ہے کہ حکومت کے اس اعلان کا مقصد پولیس پر تشدد اور ہلاکتوں کے الزام سے توجہ ہٹانا ہے۔
گروپ کے رابطہ کاروں میں سے ایک ماہین سرکار نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے سوگ کے اس اعلان سے ’ریاستی فورسز کی طرف سے مظاہرین کیے قتل پر اُن کو جوابدہ ٹھہرانے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بجائے طالب علموں کا بے دردی سے مذاق اڑایا گیا ہے۔‘
ادھر وزیر ٹرانسپورٹ عبیدالقادر نے کہا ہے کہ حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت نے ملک کی ایک بڑی پارٹی جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ شبر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنگہ دیش کی اتحادی حکومت کے نمائندوں نے متفقہ طور پر ’جماعت اسلامی اور شبر‘ کی ماضی اور حالیہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ان پر ’پابندی عائد کرنے کا فیصلہ‘ کیا ہے۔ 
جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے اور کالعدم قرار دیے جانے کے اس نئے حکم نامے کے بعد یہ پارٹی کسی بھی قسم کا اجتماع منعقد نہیں کر سکے گی۔
جماعت اسلامی کے رہنما شفیق الرحمان نے حکومت کے اس فیصلے کو ’غیرقانونی، اختیارات سے تجاوز اور غیرآئینی‘ قرار دیا ہے۔
ڈیلی سٹار اخبار کے مطابق بدامنی کے بعد دس ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ پُرتشدد احتجاج وزیراعظم حسینہ واجد کے 15سالہ دورِ اقتدار میں بدترین قرار دیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سمرتی سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’طلبہ مظاہرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاری حکام کی جانب سے ایسے افراد کو خاموش کرانے کی کوشش ہے جو حکومت کے کسی اقدام کو چیلنج کرتا ہے۔‘
وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں بشمول اسلامی جماعت اسلامی پر الزام لگایا ہے کہ وہ بدامنی پھیلانے کے لیے احتجاج کو ہائی جیک کر رہے ہیں۔

شیئر: