Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیشی پولیس کا ہسپتال پر دھاوا، احتجاج کرنے والے زخمی رہنماؤں کو اٹھا کر لے گئی

طلبا کے پرامن مظاہرے گذشتہ ہفتے پرتشدد احتجاج میں بدل گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے ایک ہسپتال کے عملے نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پولیس کے جاسوسوں نے جمعے کو طلبا مظاہروں کے تین رہنماؤں کو زبردستی ڈسچارچ کرا کر نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں۔
ناہید اسلام، آصف محمود اور ابوبکر مجمدار تینوں امتیازی سلوک کے خلاف طلبا نامی گروہ کے ارکان ہیں۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے سول سروس میں بھرتیوں کے قوانین کے خلاف حال ہی میں سڑکوں پر احتجاج کیا ہے۔
پولیس اور ہسپتالوں کے اعداد وشمار کے مطابق پولیس کے کریک ڈاؤن اور جھڑپوں میں کم از کم 193 افراد مارے گئے۔ یہ وزیراعظم حسینہ شیخ کے دور کا بدامنی کا بدترین واقعہ ہے۔
ان تینوں طلبا میں سے کم از کم دو کے زخموں کا علاج ہو رہا تھا جو ان کے مطابق ڈھاکہ میں پولیس کی حراست میں تشدد کی وجہ سے آئے تھے۔
گونوشستایا ہسپتال کی سپروائزر انورہ بیگم نے بتایا کہ ’وہ انہیں ہم سے لے گئے۔ ان آدمیوں کا تعلق ڈیٹیکٹو برانچ سے تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ان طلبا رہنماؤں کو ڈسچارج نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن پولیس نے ایسا کرنے کے لیے ہسپتال کے چیف پر دباؤ ڈالا۔
ناہید اسلام کی بڑی بہن فاطمہ تسنیم نے ہسپتال سے اے ایف پی کو بتایا کہ چھ سادہ لباس میں ملبوس جاسوس ان تینوں کو لے گئے۔
تینوں طلبا کے گروہ نے اس ہفتے کے آغاز میں یہ کہتے ہوئے احتجاج کو معطل کر دیا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں کے کوٹے میں اصلاحات چاہتے ہیں لیکن ’بہت زیادہ خون کی قیمت پر‘ نہیں۔
یہ معطلی جمعے کو ختم ہونے والی تھی لیکن اس گروہ نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔
دوسری جانب ڈھاکہ پولیس کے تین سینیئر افسران اس بات سے انکاری ہیں کہ تینوں طلبا رہنماؤں کو جمعے کو ہسپتال سے حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس نے جمعرات کو کہا تھا کہ اس نے گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے احتجاج کے بعد کم از کم چار ہزار افراد کو گرفتار کیا، ان میں سے 2500 کو ڈھاکہ سے گرفتار کیا گیا۔

ناہید اسلام کی بڑی بہن فاطمہ تسنیم کے مطابق چھ سادہ لباس میں ملبوس جاسوس ان تینوں کو لے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں کے طلبہ گذشتہ ایک ماہ سے سرکاری ملازمتوں میں سنہ 1971 کی جنگ آزادی کا حصہ رہنے والوں کے رشتہ داروں کے لیے مخصوص 30 فیصد کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ تاہم طلبا کے پرامن مظاہرے گذشتہ ہفتے پرتشدد احتجاج میں بدل گئے تھے۔
بعد میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کے حوالے سے ہائی کورٹ کا فیصلہ ’غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے 93 فیصد بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے تمام سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد ریزرو شدہ ملازمتوں کی تعداد کو کم کر کے سات فیصد کر دیا گیا، جن میں سے زیادہ تر اب بھی بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف 1971 کی آزادی کی جنگ کے ’آزادی کے جنگجوؤں‘ کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی جائیں گی۔

شیئر: