Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کو روکنے کی کوششیں، متعدد افراد زیرحراست

مظاہرین کو روکنے اور طاقت کے استعمال کے خلاف صوبے کے بیشتر شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کو روکنے کی حکومتی کوششوں کے بعد نہ صرف ساحلی شہر بلکہ صوبے کے دیگر کئی شہروں میں صورتحال کشیدہ اور معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’دو دنوں کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے گوادر، کیچ اور مستونگ میں کم از کم دو مظاہرین ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔‘
تاہم بلوچستان حکومت نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
حکومت نے گوادر جانے والے قافلوں کو روکنے کے لیے گذشتہ دو دنوں سے وہاں جانے والے تمام راستوں کو مختلف مقامات پر بند کیا ہوا ہے، جبکہ گوادر سمیت مکران ڈویژن میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس اور گوادر میں لینڈ لائن سروس کو بھی بند کیا گیا ہے۔
راستے بند ہونے کی وجہ سے صوبے کے بیشتر شہروں کا ایک دوسرے سے زمینی رابطہ منقطع ہے، دو دنوں سے نہ صرف مظاہرین بلکہ ہزاروں مسافر اور شہری بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
مظاہرین کو روکنے اور طاقت کے استعمال کے خلاف کوئٹہ، گوادر، کیچ، نوشکی سمیت صوبے کے مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنے جا ری ہیں جبکہ اتوار کو صوبے کے بیشتر شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے چند ہفتے قبل اتوار 28 جولائی کو گوادر میں ’بلوچ راجی موچی‘ یعنی ’بلوچ قومی اجتماع‘ کا اعلان کیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما گلزار دوست بلوچ نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ اس اجتماع کا مقصد بلوچستان میں ’جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صوبے کے وسائل پر قبضے‘ کے خلاف بلوچ قوم کو یکجا کر کے احتجاج کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اجتماع کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے، موبائل فون، انٹرنیٹ حتیٰ کہ لینڈ لائن سروس بھی بند کر دی۔
گلزار دوست کے مطابق ’گوادر میں کرفیو جیسی صورتحال پیدا کی گئی، قافلوں پر فائرنگ کی لیکن اس کے باوجود آج گوادر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکلے۔ میرین ڈرائیو پدی زر پر جہاں پر جلسہ ہونا تھا وہاں آج ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’گوادر میں آج سید ہاشمی چوک پر مظاہرین پر فائرنگ کی گئی، اسی طرح پنجگور، کیچ اور دیگر شہروں سے گوادر جانے والے قافلوں کو کیچ اور گوادر کے درمیان تالار چیک پوسٹ پر روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس سے دو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہو گئے۔‘
’اس سے ایک روز قبل مستونگ میں بھی گوادر جانے والے قافلوں روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کیا۔ بسوں پر فائرنگ کی اور اس کے ٹائر برسٹ کیے۔‘
گلزار دوست نے مزید کہا کہ مستونگ میں ’سکیورٹی فورسز کی فائرنگ‘ سے قافلے میں شامل 14 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔

گلزار دوست کے مطابق ’گوادر میں کرفیو جیسی صورتحال پیدا کی گئی لیکن اس کے باوجود آج گوادر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکلے۔‘ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

مستونگ کے نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر سعید احمد نے تصدیق کی کہ ’ہسپتال میں 13زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے بیشتر کو گولیاں لگی تھیں، ان میں سے پانچ شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔‘
تاہم گوادر اور کیچ میں فائرنگ کے واقعات کی اردو نیوز آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔ کیچ کے لیویز کنٹرول کے مطابق تالار چیک پوسٹ پر جھڑپیں ہوئیں تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔
پنجگور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ سنیچر کی رات کو پنجگور کے علاقے گوارگو کے مقام پر گوران چیک پوسٹ پر لیویز نے قافلوں کو روکنے کی کوشش کی تو مشتعل مظاہرین نے سڑک بند کرنے کے لیے کھڑے کیے گئے دو مزدا ٹرکوں کو وہاں سے ہٹایا اور پھر آگ لگا کر تباہ کر دیا۔
تاہم گلزار دوست کا کہنا تھا کہ دو دنوں سے پورے صوبے میں کرفیو جیسی صورتحال ہے، چھاپے مارے جا رہے ہیں، سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ہمیں علم نہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کی قیادت روپوش ہے یا گرفتار ہے۔
مظاہرین پر تشدد اور قافلوں کو روکنے کے خلاف اتوار کو مستونگ، نوشکی، چاغی، خاران، واشک، تربت، خضدار، قلات اور صوبے کے دیگر شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ بلوچ اکثریتی آبادی پر مشتمل بشیتر اضلاع میں کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے۔
کوئٹہ میں بھی سریاب، کسٹم، گاہی خان چوک سمیت مختلف مقامات پر سڑکیں بند کرکے دھرنے دییے گئے۔ اسی طرح مستونگ، نوشکی اور لسبیلہ میں زیرو پوائنٹ پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔

مظاہرین کو روکنے اور طاقت کے استعمال کے خلاف کوئٹہ، گوادر، کیچ، نوشکی سمیت صوبے کے مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنے جا ری ہیں۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے سنیچر کو مستونگ میں فائرنگ کی تردید کرتے ہوئے اسے افواہ اور غیر مصدقہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو دانستہ طور پر خرابی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، قانون سے کوئی مبرا نہیں، پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے تاہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حکومتی ترجمان نے مزید کہا کہ گوادر میں مظاہرے کے در پردہ عزائم واضح ہیں۔ بلوچ یکجہتی کونسل کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دے چکے ہیں۔
اس سے پہلے بلوچستان اسمبلی میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے وقت اور جگہ کے انتخاب پر سوال اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق، وکلا تنظیموں، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استمعال کی مذمت کی ہے۔
نیشل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات اسلم بلوچ، رکن اسمبلی کلثوم نیاز اور دیگر نے اتوار کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے دو روز سے بلوچستان میں تمام راستوں کو بند کیا ہوا ہے تاکہ گوادر جانے والے قافلوں کو روک سکے۔ پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔ دو دنوں میں کوئٹہ سے 300 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

وزیراعلٰی سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ احتجاج کے لیے گوادر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

گوادر سے بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان نے احتجاجاً بلوچستان حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’حق دو تحریک کے رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ وہ آئندہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ گودار میں ایک سیاسی اجتماع ہونے جا رہا تھا جس کو روکنے کے لیے حکومت نے طاقت کا ناجائز استعمال کیا۔ طاقت کا استعمال کرکے حکومت عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ یہاں پرامن احتجاج کی کوئی جگہ نہیں۔

شیئر: