Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بیچلر ڈگری قانونی طور پر کی جا سکتی ہے؟

انتظامیہ کے مطابق ’جی سی یونیورسٹی کسی بھی نان ایکریڈیٹ پروگرام میں داخلے نہیں کر رہی‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)
لاہور میں سب سے قدیم اور معیاری سمجھی جانے والی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں بیچلرز ڈگری تو شروع کروا دی لیکن یہ ڈگری اعلیٰ تعلیم کے ریگیولیٹری ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تسلیم شدہ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ڈگری کے خواہشمند طلبہ کا سمسٹر روک دیا گیا ہے اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں نئے داخلے بھی نہیں ہو رہے۔
جی سی یو کے بیچلرز اِن آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے طلبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ان کے تیسرے سمسٹر کا ابھی تک آغاز ہی نہیں ہو سکا۔
پچھلے دو سمسٹر بی ایس آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پڑھنے والے حسن علی (فرضی نام) نے بتایا کہ ’رواں سال فروری میں ہمارے داخلے ہوئے تھے اور اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات آئے تھے تو میں نے سوچا کہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ جی سی یو سے اے آئی کی ڈگری کی جائے۔‘
ان کے بقول ’دو سمسٹر ہمیں پڑھائے جا چکے ہیں اور اس دوران ہی ہمیں ایسی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ یہ ڈگری تو ایچ ای سی سے منظور ہی نہیں ہوئی ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کی تو کوئی تسلّی بخش جواب نہیں دیا گیا لیکن ہمیں خطرہ اس وقت محسوس ہوا جب ہمارے تیسرے سمسٹر کی فیس جمع کروانے کا نوٹیفکیشن نہیں لگا اور ابھی تک ہمارا سمسٹر ہی شروع نہیں ہو سکا۔‘
حسن علی کہتے ہیں کہ ’اب ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ داخلے تو ہم نے لے لیے ہیں لیکن یونیورسٹی کے پاس اے آئی کی ڈگری دینے کا اختیار نہیں ہے۔‘
حفصہ خان بھی انہی طلبہ میں سے ایک ہیں جو یونیورسٹی کی جانب سے سمسٹر روک دیے جانے پر پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے تاریخی اور معیاری سمجھی جانے والی درسگاہ بچوں کے داخلے تو کر لے لیکن اس کے پاس ڈگری پڑھانے کی سند نہ ہو۔اسی بات سے دماغ چکرا جاتا ہے۔‘

یونیورسٹی میں نہ صرف آرٹیفیشل انٹیلی جنس بلکہ سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی ڈگری میں بھی ایچ ای سی کی منظوری کے بغیر داخلے کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’کوئی پرائیویٹ ادارہ ہوتا تو اور بات تھی لیکن جو ہمارے ساتھ ہوا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ اب ہمیں نہ تو یہ معلوم ہے کہ تیسرا سمسٹر کب شروع ہو گا اور نہ ہی اس حوالے سے یقین ہے کہ یہ ڈگری ایچ ای سی مانے گا بھی یا نہیں۔‘
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ترجمان مصدق سلطان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یونیورسٹی کے موقف کے طور پر اُردو نیوز کے ساتھ وائس چانسلر کا ایک تحریری بیان شیئر کیا۔
اس تحریری بیان میں جی سی یونیورسٹی لاہور کی عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر شازیہ بشیر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جی سی یونیورسٹی آنے والے داخلوں میں کسی بھی نان ایکریڈیٹ پروگرام میں داخلے نہیں کر رہی۔
’جب سے میں نے ادارے کا چارج سنبھالا ہے میں اس بات کو یقینی بنا رہی ہوں کہ پالیسی گائیڈ لائنز پر مکمل عمل درآمد کیا جائے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جاری کر رکھی ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بی ایس آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بی ایس سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگریوں کو ریگولرائز کرنے کے لیے ہم متعلقہ ایکریڈیشن کونسل اور ایچ ای سی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں پروگرام گزشتہ برس شروع کیے گئے جب میں اس ادارے کی سربراہ نہیں تھی۔‘
ان کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف آرٹیفیشل انٹیلی جنس بلکہ سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی ڈگری میں بھی ایچ ای سی کی منظوری کے بغیر داخلے کیے گئے۔

ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ’جی سی یونیورسٹی لاہور ان ڈگریوں کو دینے کی ابھی تک اہل نہیں ہے۔‘ (فوٹو:ایچ ای سی فیس بک)

دوسری جانب ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ ’جی سی یونیورسٹی لاہور ان دونوں ڈگریوں کو دینے کی ابھی تک اہل نہیں ہے۔‘
ایچ ای سی کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 85 تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ڈگری آفر کر رہے ہیں جن میں سے اکثریت ابھی تک ایکرڈیٹڈ نہیں ہے۔ 80 فیصد تعلیمی اداروں نے اس ڈگری پروگرام کا آغاز رواں سال 2024 میں کیا ہے۔
ایچ ای سی ترجمان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ڈگریوں کی منظوری کا ایک مروجہ طریقہ کار ہے جس میں ہر شعبے کے حوالے سے الگ سے ایکریڈیشن باڈیز کام کر رہی ہیں۔ جب تک یہ باڈیز ایکریڈیٹ نہ کریں اور وہ تمام لوازمات پورے نہ ہوں کوئی بھی ادارہ ڈگری پروگرام شروع نہیں کر سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عام طور پر ایکرڈیشن کی درخواست دے کر تعلیمی ادارے پڑھائی شروع کروا دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں بعد میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

شیئر: