Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہیں تھا: دو ججز کا اختلافی نوٹ

جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں کے فیصلے پر دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے
ججز کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ’پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔‘
اختلافی فیصلے کے مطابق ’یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔‘
دو ججز نے اختلافی فیصلے میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پر بھی سوالات اٹھا دیے۔
’مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا۔ تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکمنامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔‘
’پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی سقم موجود نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے آئین و قانون کی روشنی میں مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیں۔‘
اختلافی نوٹ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے چار خطوط بھی شامل کیے گئے۔
مزید کہا گیا کہ ’آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا۔‘
تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی، سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘

مزید کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ جب کوئی اپیل سنتی ہے تو اس کا اختیار سماعت محدود ہوتا ہے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

اختلافی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا۔‘
اختلافی نوٹ کے مطابق ’80 اراکین کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے انہیں سنے بغیر کر دیا، ان اراکین کا سنی اتحاد کونسل میں جانا متنازع تھا ہی نہیں، ناصرف سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کی گئیں بلکہ وہ آزاد اراکین جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی انہیں سنے بغیر سنی اتحاد کونسل سے چھینا گیا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ جب کوئی اپیل سنتی ہے تو اس کا اختیار سماعت محدود ہوتا ہے جسے اکثریتی فیصلے میں نظر انداز کیا گیا، پی ٹی آئی کو اگر مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں تو یہ عدالت کا اپنی جانب سے خود سے تخلیق کردہ ریلیف ہوگا۔‘
ہمارا واضح مؤقف ہے کسی بھی آئینی ادارے کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ایسے فیصلے پر عمل کرے جو آئین کے مطابق ہی نہ ہو۔‘

شیئر: