Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں میں جھڑپیں، 77 ہلاک

طلبا کے ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف مظاہرے اب حکومت ہٹاؤ تحریک میں بدل گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیشں میں وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین کی اتوار کو حکومت کے حامی ہجوم کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جن میں کم از کم 77 افراد ہلاک ہو گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومت کے خلاف نکلنے والے مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ڈنڈوں، چاقووں اور بندوقوں کا استعمال کیا گیا۔  اتوار کو ہلاک ہونے والوں میں 14 پولیس افسران بھی شامل ہیں۔
اتوار کو ہونے والے مظاہروں کے دوران حکومت مخالف مظاہرین کو بکتر بند گاڑیوں پر چڑھ کر ڈانس کرتے دیکھا گیا۔
اتوار کو بہت سارے واقعات میں ماضی کے برعکس فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور خاموش رہ کر انہیں دیکھتے رہے۔
ماضی میں ایسے مظاہروں کا اختتام پولیس اور فوجیوں کے جانب سے مظاہرین پر ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کی صورت میں ہوتا تھا۔ تاہم اس بار ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ایک سابق آرمی چیف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوجیوں کی تعیناتی کو واپس لیں اور مظاہرین کو احتجاج کرنے دیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو، جس کی تصدیق اے ایف پی نے کی، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دارلحکومت ڈھاکہ میں بڑی تعداد میں پرجوش مظاہرین میں سے بعض ایک بکتر بند گاڑی کی چھت پر چڑھ کر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرا رہے ہیں اور موقع پر موجود فوجی خاموشی سے دیکھتے رہے۔
جولائی کے مہینے میں حکومتی ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف ہونے والے مظاہرے پرتشد ہو گئے تھے اور کئی دنوں کے تشدد میں 200 سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔

اتوار کو بہت سارے واقعات میں ماضی کے برعکس فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک میں کرفیو لگایا گیا تھا جس کے بعد مختصر مدت کے لیے سکیورٹی فورسز نے امن و امان بحال کیا اور حالات معمول پر آ گئے تھے۔ لیکن رواں مہینے احتجاجی طلبا اور مظاہرین بہت بڑی تعداد میں دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے عدم تعاون (سول نافرمانی) کی تحریک شروع کی ہے۔

’دارلحکومت ڈھاکہ میدان جنگ بنا ہوا ہے‘

اتوار کو ڈنڈا بردار مظاہرین نے بہت بڑی تعداد میں ڈھاکہ کے شاہ باغ چوک کو بھر دیا۔ جب کہ دوسری طرف ملک کے کئی شہروں میں مظاہرین اور حسینہ واجد کے حامیوں کے درمیان دن بھر تصادم ہوتا رہا۔
پولیس نے اتوار کی شام چھ بجے سے ملک بھر میں کرفیوں کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری جانب مظاہرین کو ریلی نکالنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی ہے۔ تاہم مظاہرین پرعزم ہے کہ وہ کرفیوں کے باجود اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
اتوار کو ہونے والے پرتشدد واقعات میں کئی ہلاکتوں کے بعد جاری احتجاج کے دوران اب تک ہونے والی اموات کی تعداد 283 ہو گئی ہے۔
پولیس انسپکٹر الہلال نے اے ایف پی کو بتایا کہ احتجاجی طلبا اور حکومتی پارٹی کے کارکنان کے درمیان دن بھر جھڑپیں ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ڈھاکہ کے منشی گنج ضلع میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والے ایک فرد کا سر کاٹا گیا تھا جب کہ دوسرے کو گولی لگی تھی۔‘
ایک دوسرے پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’پورا دارلحکومت میدان جنگ بنا ہوا ہے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ شمالی شہر کیشیوری گنج میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔

فوج کے بیان میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ فوج مظاہرین کو سپورٹ کرتی ہے کہ نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس اور ڈاکٹروں نے ڈھاکہ، شمالی اضلاع بوگارا، پابنا، رنگپور اور سلہٹ، مغربی ضلع ماگورا، مشرق میں کومیلا اور جنوبی علاقے باریسال اور فینی میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہیں۔
ملگ گیر سول نافرمانی کی تحریک کے اہم رہنما آصف محمود نے گذشہ مہینے پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو کچلنے کے بعد حامیوں سے کہا تھا کہ وہ مقابلے کی تیاری کریں۔
آصف محمود نے اتوار کو فیس بک پر لکھا کہ ’ لاٹھیاں تیار کریں اور بنگلہ دیش کو آزاد کرائیں۔‘
دوسری جانب کئی سابق فوجی افسران طلبا کی حکومت مخالف تحریک میں شامل ہو گئے ہیں اور سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم بھوئیان نے طلبا سے اظہار یکجہتی کے طور پر اپنے فیس بک پروفائل کو سرخ رنگ میں بدل دیا۔
جنرل اقبال نے دیگر فوجی افسران کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوجیوں کو فوری طور پر سڑکوں سے واپس بلایا جائے۔‘
انہوں نے بڑی پیمانے پر ہلاکتوں، تشدد، لوگوں کو غائب کرنے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مذمت کی۔
جنرل اقبال کریم بھوئیان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں کو، جنہوں نے ملک کو اس صورتحال تک پہنچایا، انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

’تحریک اب ملازمتوں کے کوٹے تک محدود نہیں رہا‘

موجودہ آرمی چیف وکیرالزمان نے سنیچر کو آرمی ہیڈکوارٹرز میں فوجی افسران کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔‘

سابق آرمی چیف نے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فوج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور عوام کے لیے آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔‘
بیان میں مزید کوئی تفصیلات نہیں دی گئی اور نہ واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ فوج مظاہرین کو سپورٹ کرتی ہے۔
17 کروڑ آبادی والے ملک میں طلبا کے ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف مظاہرے اب حکومت ہٹاؤ تحریک میں بدل گئے ہیں۔
حکومت مخالف ملک تحریک کی حمایت بنگلہ دیش کے ہر مکتبہ فکر کی طرف سے کی جا رہی ہے جن میں فلم سٹارز، موسیقار اور سنگرز بھی شامل ہیں۔
لوگوں پر اس تحریک کا ساتھ دینے پر زور دیتے ہوئے ’ریپ گانے‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
ڈھاکہ کے مظاہرے میں موجود سخاوت نامی ایک نوجوان لڑکی کا کہنا تھا کہ ’یہ تحریک اب صرف ملازمتوں میں کوٹے تک محدود نہیں رہی۔‘
اس دوران انہوں نے ڈھاکہ کی ایک سڑک پر موجود دیوار پر سپرے پینٹ سے لکھا ’حسینہ قاتل ہیں۔‘
’ہم کیا چاہتے ہیں؟ بس یہ کہ ہماری آنے والی نسلیں اس ملک میں آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔‘

ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شعبے گارمنٹس انڈسٹری کے صنعتکاروں نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے گارمنٹس کے شعبے کے 47 صنعت کاروں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
حکمران عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری عبیدالقادر نے پارٹی کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے ہر ضلع میں حکومت کی حمایت میں مظاہرے کریں۔
حسینہ واجد 2009 سے مسلسل بنگلہ دیش پر حکمرانی کر رہی ہیں اور جنوری میں اپوزیشن کے بغیر ہونے والے انتخابات جیت گئی تھیں۔
حسینہ واجد کی حکومت پر انسانی حقوق کے ادارے الزامات لگاتے ہیں کہ وہ حکومتی اداروں کو اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور مخالفین کو ماروائے عدالت قتل کے ذریعے قلع قمع کرنے کے لیے استعال کر رہی ہیں۔
خیال رہے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو دوبارہ متعارف کرنے کے خلاف مظاہرے اوائل جولائی میں شروع ہوگئے تھے  گو کہ کوٹہ سسٹم کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا لیکن مظاہرے ابھی تک جاری ہیں۔

شیئر: