Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟ اجمل جامی کا کالم

سوشل میڈیا کے اس دور میں یوتھ کی مانگ اور یوتھ کی سمجھ بوجھ ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے (فوٹو اے ایف پی)
آرمی چیف وقار الزمان حسینہ واجد کے رشتہ دار ہیں، ان کی اہلیہ معزول و مفرور وزیراعظم کی رشتے میں کزن لگتی ہیں۔ جنرل وقار کے سسر جنرل مستفیض بنگلہ بندھو یعنی شیخ مجیب کے عزیز تھے۔
وقار الزمان کو خود اپنے ہاتھوں سے محترمہ نے رواں برس جون میں ملٹری چیف تعینات کیا۔ آس پاس اہم عہدوں پر بھی عزیز و اقارب کی فوج ظفر موج تھی۔ مسلسل تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں، پہلے بھی یہ 1996 سے 2001 تک ملک پر راج کر چکیں، یوں یہ تقریباً بیس برس بطور وزیراعظم بنگلہ دیش کی طویل ترین دورانئے کے لیے راج کرنے والی واحد شخصیت ہیں۔
  بنگلہ دیش عوامی پارٹی کی خالدہ ضیا ہوں یا جماعت اسلامی، اپوزیشن نام کی گنجائش صرف کاغذوں تک محدود کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش عملی طور پر سنگل پارٹی سٹیٹ بنتا جا رہا تھا، ان کے دور حکومت میں اقتصادی اشاریے بہتر ضرور ہوئے، فوجی اور عدالتی حمایت ہم قدم رہی، انڈیا کا دست شفقت بھی راس رہا، لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ’ آئرن لیڈی‘ کو چند ایک رنگین سوٹ کیسز کے ساتھ فرار ہونا پڑا؟
اس سوال کا جواب اب کئی ایک زاویوں سے تلاش کیا جا رہا ہے، لیکن سامنے کی بات یہی ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں یوتھ کی مانگ اور یوتھ کی سمجھ بوجھ ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ دنیا بھر میں ریاستی توازن از سر نو تشکیل کا متقاضی ہوتا جا رہا ہے۔ اقربا پروری، گنے چنے خاندانوں کی حکمرانی، شاہی طرز سیاست، مفادات کی سرکار اور ایلیٹ کیپچر اب گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نامی شے جب عملی طور پر ختم کر کے سنگل پارٹی سسٹم زور زبردستی متعارف کروایا جائے تو پھر اپوزیشن حلق سے پیدا ہو کر خلق میں سمو جا تی ہے۔
کوٹہ سسٹم بنگلہ دیش کا اہم ایک مدعا رہا ہے، رواں برس جولائی میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی مانگ کی جا رہی تھی۔ 1971 میں فوجیوں کے لیے ان کی قربانیوں کے اعتراف میں ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا تھا، اس مدعے پر کئی بار ترمیم بھی کی گئی۔ سول سروز کی 30 فیصد ملازمتیں ان فوجیوں کے اہل خانہ کے لیے مختص تھیں۔ مزید 26 فیصد خواتین، پسماندہ اضلاع، کمیونیٹیز اور کسی حد تک معذور افراد کیلئے مختص تھیں، یعنی صرف 44 فیصد سرکاری ملازمتیں اوپن میرٹ پر تھیں۔  
یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طالب علم مایوسی کے عالم میں ان 44 فیصد سیٹوں پر قسمت آزمائی کیا کرتے تھے، طالب علموں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور سرکاری نوکری کی گنجائش اسی حساب سے سکڑ رہی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد  پڑھے لکھے نوجوان اسی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اسی مطالبے کی مانگ میں پہلے بھی 2013 سے 2018 تک مظاہرے ہوتے رہے، شیخ حسینہ نے یہ کوٹہ ایک وقت میں ختم بھی کیا لیکن پھر بنگلہ ہائیکورٹ نے جب اسے حالیہ بحران سے پہلے بحال کیا تو انہی طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔  
گو کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں خاصا ریلیف دیتے ہوئے کوٹہ سات فیصد تک مختص کر دیا، لیکن اس بیچ طالبعلم بحیثت مجموعی حسینہ سرکار کے جبری ہتھکنڈوں کے خلاف صف آرا ہو چکے تھے۔ انہی مظاہرین کو دہشت گرد اور رضا کار کا نام دیا گیا۔ رضا کار 1971 میں ان افراد کو کہا جاتا تھا جو پاکستان کے حامی تھے۔ نوجوانوں کا غم و غصہ تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

اب زمانہ بدل چکا، معلومات کی ترسیل اور دنیا بھر کی جانکاری فنگر ٹپس پر ہے (فوٹو اے ایف پی)

 کیا وہ محض کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے ہی اس قدر مشتعل تھے؟ رضا کار یا دہشت گرد کہلوائے جانے پر بپھر رہے تھے؟ یا بنیادی مطالبے کی مانگ کے پیچھے سالہا سال کی محرومی، گھٹن اور ایلیٹ کیپچر کی چھاپ انہیں اس قدر دیوانہ وار مر جانے تک تیار کر رہی تھی؟  
جی ہاں! کبھی طالبعلم محض پمفلٹس کے ذریعے کتابوں کے ذریعے، رسالوں کے ذریعے، اساتذہ کے ذریعے، سٹوڈنٹس لیڈرز کے ذریعے، اکا دکا سرکاری و غیر سرکاری ٹی وی چینلز کے ذریعے یا دستیاب اخبارات کے ذریعے معلومات حاصل کیا کرتے تھے۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی پر جوش تقاریر کے قائل ہوا کرتے تھے، انہی کے ارشادات پر بحث کیا کرتے تھے۔
اب مگر زمانہ بدل چکا، معلومات کی ترسیل اور دنیا بھر کی جانکاری فنگر ٹپس پر ہے۔ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ سیاسی و مذہبی رہنما نہیں، اساتذہ نہیں، پرانے ابلاغ کے ذرائع نہیں، جدید نسل خود طے کرنے کو پر تول رہی ہے۔ ایلیٹ کیپچر کی چھاپ اس نئی نسل کے لیے طعنہ بنتی جا رہی ہے۔ اس چھاپ سے یہ نسل نفرت کرتی ہے۔ اب یہ نسل ریاستی بندوبست میں از سر نو توازن چاہتی ہے۔ ان کی نمائندگی اب ایلیٹ خاندانوں کے ذریعے ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔
انہی کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ بند کیا گیا، ایمرجنسی لگی، کرفیوکا نفاذ کیا گیا اور پھر کیا ہوا؟ پابندیاں عائد کر کے، ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کر کے، حسینہ سرکار باقی رہ سکی؟ جواب ہے نہیں! دیر سویر وقار الزمان کو معاملات سیاستدانوں کے حوالے کرنا ہوں گے کیونکہ بپھرنا تو بند ہوا ہے مگر بہنا نہیں۔

شیئر: