بنگلہ دیش: ہماری تجویز کردہ عبوری حکومت کے سوا کوئی حل قبول نہیں، طلبہ
بنگلہ دیش: ہماری تجویز کردہ عبوری حکومت کے سوا کوئی حل قبول نہیں، طلبہ
پیر 5 اگست 2024 16:09
بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے پیر کو جیل میں قید سابق وزیر اعظم اور اہم اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے صدر کا حکم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پیر کو خالدہ ضیا کی شدید ترین مخالف عوامی لیگ کی سربراہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہوکر انڈیا چلی گئیں۔
صدر کے ترجمان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ صدر شہاب الدین کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کو فوری رہا کیا جائے گا۔
ہماری تجویز کردہ عبوری حکومت کے سوا کوئی حل قابل قبول نہیں: طلبہ رہنما
بنگلہ دیش کے اخبار ’ڈیلی سٹار‘ کے مطابق مظاہرے منظم کرنے والی طلبہ تحریک کے ایک رہنما ناہید اسلام نے نے کہا ہے نئی عبوری حکومت کے خدوخال آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر پیش کریں گے۔
ڈھاکہ میں دیگر طلبا رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہا کہ ’میں اس فتح کو ان طلبہ کے نام کرتا ہوں جو اس تحریک کے دوران جان کی بازی ہار گئے۔‘
’ہم مظاہرین فاشسٹ حکومت کے خلاف متحد ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی مذہبی یا دیگر قسم کی دھڑے بندی نہیں ہے۔‘
ناہید اسلام نے مزید کہا کہ ’ہمیں متحد رہنا ہے اور مذہبی اشتعال انگیزی اور تقسیم سے بچنا ہے۔ مظاہرین کو یہ سلسلہ روک دینا چاہیے۔‘
دوسری جانب احتجاج کرنے والے طلبہ کے نمائندوں نے کہا ہے کہ اقتدار شہریوں اور طلبہ کی مجوزہ عبوری حکومت کے حوالے کرنے کی پر عمل ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ عبوری حکومت کے علاوہ کوئی بھی متبادل قابل قبول نہیں ہو گا اور نہ ہی فاشسٹ قوتوں اور قاتلوں کو بچ نکلنے کا موقع دیا جائے گا۔
امریکہ کا عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کا خیرمقدم
امریکہ نے بنگلہ دیش کی تازہ ترین صورتحال پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرتشدد اقدامات سے گریز کریں۔
سٹیٹ ڈپارٹمںٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تمام فریقوں پر تشدد سے گریز کے لیے زور دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ ہم آئندہ دنوں میں تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔‘
میتھو ملر نے مزید کہا کہ ’ہم عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کوئی اقتدار کی منتقلی بنگلہ دیش کے قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔‘
پیر کی رات کو بنگلہ دیشی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ملک میں 17 روز سے جاری کرفیو کو منگل کی صبح سے ختم کیا جا رہا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ منگل کی صبح چھ بجے کرفیو ختم ہو جائے گا۔ اس اعلان میں بتایا گیا ہے کہ تمام دفاتر، عدالتیں، تعلیمی ادارے اور فیکٹریاں کھول دی جائیں گی۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو اقتدار سے کیسے نکالا؟
جولائی میں حکومت کے ملازمتوں کے لیے متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا اختتام پیر کو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونے فوج کی جانب سے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کرنے پر ہوا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 76 سالہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کرنے والے مظاہروں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں کم از کم 300 افراد مارے گئے۔
یہاں پانچ اہم تاریخیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کس طرح مظاہروں نے تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں حکومت کو گرایا۔
یکم جولائی: ناکہ بندی کا آغاز
یونیورسٹی کے طلبہ نے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بند کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں تاکہ پبلک سیکٹر کی ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سکیم کا استعمال حسینہ واجد کی حکمران عوامی لیگ کے وفاداروں کو نوازنے کے لیے کیا گیا۔
حسینہ واجد نے جنوری میں حقیقی مخالفت کے بغیر ووٹنگ کے بعد وزیراعظم کے طور پر پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالب علم ’اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘
16 جولائی: تشدد میں شدت
مظاہروں میں پہلی اموات ریکارڈ کی گئیں اور جھڑپوں میں چھ افراد مارے گئے۔ ایک دن بعد جب ڈھاکہ میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں نے ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسائیں اور اینٹوں سے حملہ کیا۔
حسینہ واجد کی حکومت نے ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا۔
18 جولائی: وزیر اعظم نے سرزنش کی
طالبات نے حسینہ کی طرف سے آفر کو مسترد کر دیا، اس کے ایک دن بعد جب انہوں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ احتجاج میں ہونے والے ہر ’قتل‘ کی سزا دی جائے گی۔
مظاہرین ’ڈکٹیٹر کو نکالو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور سرکاری نشریاتی ادارے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر اور درجنوں دیگر سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر رہے تھے۔ حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا۔
جھڑپوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جو چوبیس گھنٹے کرفیو اور فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود جاری رہے۔
21 جولائی: سپریم کورٹ کا فیصلہ
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ، جسے ناقدین حسینہ کی حکومت کی ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھتے ہیں، نے ملازمتوں کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرانے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔
لیکن اس فیصلے سے مظاہرین خوش نہ تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف 1971 کی آزادی کی جنگ سے ’آزادی کے جنگجوؤں‘ کے بچوں کے لیے مخصوص ملازمتیں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔
5 اگست: حسینہ کا فرار
حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈھاکہ سے فرار ہوئیں جب ہزاروں مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر جشن منا رہے تھے، کچھ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی چھت پر رقص کر رہے تھے۔
ان کی ڈرامائی رخصتی مظاہروں کے مہلک ترین دن کے ایک دن بعد ہوئی ہے جس میں ملک بھر میں کم از کم 94 افراد مارے گئے تھے، جن میں سے بہت سے حسینہ واجد کے حامیوں کے ساتھ لڑائیوں میں مارے گئے تھے۔
کئی معاملات میں فوجیوں اور پولیس نے احتجاج کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کی جیسا کہ پچھلے مہینے ریلیوں کے دوران ہوا تھا۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور فوج عبوری حکومت بنائے گی۔.