Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا واقعی ارشد ندیم کا ٹیلنٹ پنجاب سپورٹس فیسٹیول میں سامنے آیا؟

ارشد ندیم نے اولمپکس کے مقابلوں میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا انفرادی گولڈ میڈل جیت کر اور اولمپکس کی اب تک کی سب سے بڑی تھرو پھینک کر دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
ایسے میں سیاسی تقسیم کا شکار پاکستانی قوم ایک ہی ہیرو کے لیے متحد نظر آئی۔ تاہم ایک بحث سوشل میڈیا یہ بھی چل نکلی ہے کہ ارشد ندیم نے بغیر کسی بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ اور وسائل سے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، اب جبکہ وہ اپنے خواب کی تعبیر پا چکے ہیں تو ان کی فتح میں کوئی حصے دار بھی نہیں ہے۔
اس بحث کا تناظر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اولمپک گیمز میں شرکت سے قبل ارشد ندیم نے وزیراعظم سے ملاقات کی، اور اس ملاقات میں وہ کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے ان کا یہ ٹیلنٹ پنجاب میں سنہ 2012 میں ہونے والے یوتھ فیسٹیول میں سامنے آیا تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے فیسٹیولز کو جاری رکھے۔
دوسری طرف حکومت کے ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یوتھ فیسٹیول سے ٹیلنٹ سامنے آیا بھی تو اس کے بعد ارشد ندیم نے جن نامساعد حالات کا سامنا کیا، اس دوران حکومت نے مدد کیوں نہ کی۔

یوتھ فیسٹیول کیا تھا؟

سنہ 2011 میں اس وقت کی پنجاب حکومت نے ایک سپورٹس فیسٹیول منعقد کروایا جس میں صوبے بھر سے یونین کونسل کی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک ہر کھیل کے مقابلے کروائے گئے، اور پھر اضلاع کے درمیان ان کھیلوں کے فائنل مقابلے لاہور میں ہوئے۔ ان مقابلوں میں کرکٹ، ہاکی، تیراکی، ٹیبل ٹینس، نیزہ بازی سمیت 24 سے زیادہ کھیل شامل تھے۔ تاہم سنہ 2012 میں اس فیسٹول میں کھیلوں کے علاوہ بھی نوجوانوں سے متعلق ہر طرح کی سرگرمی شروع کر دی گئی۔ اور اس میں آرٹس اور مصوری کے مقابلے بھی شامل ہو گئے۔
اس وقت کے پنجاب کے وزیر کھیل اور موجودہ وزیراعظم کے مشیر رانا مشہود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا فوکس تھا کہ نوجوانوں کو کھیلوں میں واپس لایا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ارشد ندیم نے کوئی چھ کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ جن میں ہائی جمپ، دوڑ اور جیولین بھی شامل تھے۔ یہ اپنے ضلع کی ٹیموں کو ہرا کر یہاں تک آئے تھے۔ ان کا ٹیلنٹ دیکھ کر سب حیران تھے۔ اس وقت یہ طے پایا تھا کہ وہ جیولین میں بہت آگے جا سکتے ہیں لہذا وہ اس کھیل پر فوکس کریں۔ اسی کے بعد سے دستیاب انفراسٹرکچر کی بنیاد پر ان کی مالی معاونت اور سپانسر شپ کے معاملات میں حکومت نے مدد کرنا شروع کی۔‘

شاہد ندیم کے مطابق ارشد ندیم کے مدمقابل بین الاقوامی کھلاڑیوں کو جو سہولتیں میسر تھیں وہ انہیں حاصل نہیں تھیں۔ (فائل فوٹو: فیس بک)

انہوں نے کہا کہ ’اس کے بعد سنہ 2014 میں ہم نے تاریخ کا سب سے بڑا یوتھ فیسٹیول کروایا جو آج بھی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس میں 14 ورلڈ ریکارڈ بنے تھے۔ اسی فیسٹیول کے دوران دھرنا شروع ہوا اور نیب اور دیگر اداروں نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے، یوتھ فیسٹیول کروانے پر مجھے نیب نے بلا لیا تھا۔‘
اس حوالے سے جب اردو نیوز نے میاں چنوں میں ارشد ندیم کے بھائی شاہد ندیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے 12 برس قبل کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں مقابلے ہو رہے تھے تو ارشد وہاں گیا۔ واپس آ کر اس نے بتایا کہ وہ جیتا ہے اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اب اس کے کھیل کو بہتر بنانے میں اس کی مدد کرے گی۔ اس کے بعد کبھی وہ لاہور میں ٹریننگ کرتا کبھی یہاں، تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ اس کے مدمقابل بین الاقوامی کھلاڑیوں کو جو سہولتیں میسر تھیں وہ اسے حاصل نہیں تھیں۔ کیونکہ پاکستان میں اولمپکس کھیلوں کا سسٹم بھی کمزور ہے تو وسائل بھی اسی وجہ سے کم ہیں لیکن وہ اپنے طور پر اس کی مدد کر رہے تھے۔‘
جب رانا مشہود سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر یوتھ فیسٹیول اتنی ہی افادیت رکھتے تھے تو ان سے نکلنے والے کھلاڑیوں کو وسائل کی فراہمی یقینی کیوں نہیں بنائی گئی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ اس وقت پنجاب حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک تھا۔ صوبے میں 4600 گراؤنڈ ایک قانون کے ذریعے کھیلوں کے لیے مختص کیے گئے۔ ضلعی سطح پر جمنازیم بنائے گئے لیکن اس وقت ہی جو حالات بنا دیے گئے وہ بہت مشکل تھے۔ اب کل ہم نے وزیراعظم کے ساتھ ارشد کا مقابلہ دیکھا ہے تو ان معاملات پر بڑی سیر حاصل بات ہوئی ہے۔‘

ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یوتھ فیسٹیول سے ارشد ندیم کا ٹیلنٹ سامنے آیا بھی تو اس کے بعد حکومت نے مدد کیوں نہ کی۔ (فائل فوٹو: فیس بک)

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں پہلی بائیو مکینیکل لیب بن رہی ہے جس کی منظوری وزیراعظم نے دی ہے۔ اس کے فعال ہونے سے پاکستان کے ایتھلیٹس کو عالمی معیار کی فٹنس جانچنے کے لیے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ارشد ندیم کا اس وجہ سے بھی وقت ضائع ہوا کہ بائیو مکینیکل لیب نہیں تھی۔ اس وقت 23 بین الاقوامی معیار کی سپورٹس اکیڈمیاں بنائی جا رہی ہیں جن میں 23 گیمز کی معیاری ٹریننگ دی جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ اب ہم ٹریک پر واپس آ چکے ہیں۔‘

شیئر: