Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں 95 میٹر کی تھرو بھی کر سکتا تھا‘ ارشد ندیم نے اپنی فتح کے بعد کیا کہا؟

ارشد ندیم نے 92.97 میٹر تھرو کے ساتھ نیا اولمپک ریکارڈ بنایا (فوٹو: اے ایف پی)
پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے کہا ہے کہ ان کی فائنل میں 88 میٹر کی تھرو 95 میٹر تک جا سکتی تھی اگر وہ اپنا بازو نہ دباتے۔
جمعرات کو پیرس میں ہونے والے مینز جیولِن تھرو فائنل کے بعد ساتھی ایتھلیٹس کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ارشد نے کہا ’مجھے امید تھی کہ میں اپنا بہترین کھیل پیش کروں گا، میں بہت خوش نصیب ہوں کہ پاکستانی قوم نے میرے لیے اتنی دعائیں کیں‘۔
صحافیوں نے ارشد ندیم سے ان کی ٹیکنیک کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیسے 92.97 میٹر تھرو کرنے میں کامیاب ہوئے، جس پر ارشد نے کہا کہ انہوں نے اپنی ٹیکنیک پر بہت کام کیا اور یہ پہلے سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔
ارشد ندیم نے نیرج چوپڑا کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کا جب کرکٹ میچ ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے عوام اپنا کام چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
’اسی طرح میرا اور نیرج چوپڑا بھائی کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس کی ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں طرف کے عوام اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور جو محنت کرتا ہے اس کو پھل ملتا ہے۔

ارشد ندیم نے کہا کہ ’ہم دونوں جنوبی ایشیا سے ہیں اور پوری دنیا میں پرفارم کرتے ہیں اس کی بڑی خوشی ہو رہی ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے نوجوانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ بھی محنت کریں اور پوری دنیا میں اپنے اپنے ملکوں کا نام روشن کریں۔‘
ارشد نے مزید کہا کہ ’مجھے بہت کہا جاتا ہے کہ آپ کا رن اپ ایسا ہے جیسے آپ کرکٹ میں بھاگ رہے رہیں، میں اس پر کام کر رہا ہوں اور اب یہ کافی بہتر بھی ہوچکا ہے۔‘
کرکٹ کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے ارشد نے بتایا کہ وہ ہمیشہ کرکٹر بننا چاہتے تھے اور بہت اچھے بولر بھی تھے۔ صرف کرکٹ ہی نہیں فٹبال اور کبڈی میں بھی اچھی کارکردگی دکھاتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرکٹ میں نام اور جگہ بنانا بہت مشکل ہو جاتاہے اس لیے میں ایتھلیٹکس میں چلا گیا۔
دوسری جانب نیرج چوپڑا نے کہا کہ وہ اور ارشد ندیم سنہ 2016 سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ گولڈ میڈل ہمیشہ سے میرے پاس رہا، مگر آج ارشد نے غیرمعمولی کارکردگی دکھائی اور کامیاب ہوئے۔ یہ اُن کے لیے اور اُن کے ملک کے لیے بڑی کامیابی ہے۔
میں ارشد ندیم کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے بہت محنت کی۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے لیے بہت اچھا ہے کہ اب مزید ایتھلیٹ اس کھیل میں آئیں گے اور جیولِن اُٹھا کر مقابلہ کریں گے۔
نیرج چوپڑا نے کہا ’حالیہ کچھ عرصے میں جیولن کا کھیل دونوں ملکوں میں مشہور ہو چکا ہے اور مستقبل میں یہ مزید مقبول کھیل کا درجہ حاصل کرے گا۔‘
واضح رہے جمعرات کو پیرس میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں ارشد ندیم نے دوسری اٹیمپٹ میں 92.97 میٹر تھرو پھینک کر نیا اولمپکس ریکارڈ قائم کیا تھا اور گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب  ہوئے۔


ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا دونوں نے پہلی تھرو میں ہی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی) 

یاد رہے کہ 32 سال قبل آٹھ اگست 1992 کو پاکستان نے آخری مرتبہ اولمپکس میں میڈل حاصل کیا تھا۔ پاکستان ہاکی ٹیم نے بارسلونا اولمپکس میں نیدرلینڈز کو تین کے مقابلے میں چار گول سے شکست دے کر کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
پاکستان نے 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا، تاہم اس کے بعد پاکستان 40 سال تک اولمپکس میں کوئی گولڈ میڈل نہیں جیت سکا تھا۔
فائنل مقابلے میں صرف ایک تھرو دُرست پھینکنے والے انڈیا کے نیرج چوپڑا 89.45 میٹر کی تھرو پھینک کر چاندی کے تمغے کے حق دار قرار پائے۔
گرینیڈا کے پیٹرز اینڈرسن نے 88.54 میٹر کی تھرو کے ساتھ کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
اس سے قبل منگل کو ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس 2024 کے ’مینز جیولین تھرو‘ مقابلے میں فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

شیئر: